سورة الرعد - آیت 2

اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

وہ اللہ کی ذات ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ایسے ستونوں (٢) کے جنہیں تم دیکھ سکو، اوپر اٹھایا، پھر عرش مستوی پر مستوی ہوگیا، اور آفتاب و ماہتاب کو ڈیوٹی کا پابند بنا دیا، دونوں ایک معین مدت کے لیے چلتے رہتے ہیں، وہی تمام معاملات کا انتظام کرتا ہے، اپنی آیتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے، تاکہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرلو۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) استواء کا مسئلہ مدتوں اسلامی فرقوں میں نزاع کا باعث رہا ہے ، اہل سنت کا مسئلہ اس باب میں بالکل واضح ہے کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں مگر اس کی تفصیلات سے پوری طرح آگاہ نہیں یعنی ہم مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے استواء فرمایا ، مگر کیونکر ؟ اس کا جواب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اپنی عقل کی کمی کا اعتراف کرلیں اجمالا یوں سمجھ لیجئے ، کہ یہ ایک نوع کی تجلی تدبیر تھی یہی وجہ ہے اس کو عین تجلیات تکوین کے درمیان رکھا ہے ۔ اور (آیت) ” یدبر الامر “۔ کی تصریح بھی فرما دی ہے ۔ علوم پڑھو ! (ف ٢) قرآن حکیم کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ دلائل میں قانون قدرت کی ہمہ گیری دوست کو پیش کرتا ہے ، وہ کہتا ہے اگر تم زمین وآسمان میں پھیلے ہوئے قانونوں کو تلاش کرو ، تو اسلام کی حقیقت کو پالو گے ، آسمانوں کو دیکھو کس حیرت انگیز وسعت کے ساتھ پیدا کئے ہیں ستاروں اور آسمانوں کے لئے بظاہر کوئی عماد وستون نہیں مگر وہ مکمل طور پر فضاء میں سایہ فگن ہیں ، چاند ، سورج مستخر ہیں ، انسان کے فائدے کے لئے بنائے گئے ہیں ، ہر ایک کے لئے طلوع وغروب کا وقت مقرر ہے ، جس میں کبھی خلاف نہیں ہوتا ۔ دنیا کے ہر فقہ سے میں اللہ کی تدبیر وحکمت کار فرما ہے ، کہا یہ سب چیزیں آخرت پر دلالت نہیں کرتیں ؟ اور ان سے یہ نہیں معلوم ہونا کہ کارگاہ حیات کی وسعتیں مقصد سے خالی نہیں ہو سکتیں ۔ ” استوی “ کے معنی اللہ کی شان تدبیری کو بیان کرنا ہے ، اللہ تعالیٰ کے متعلق جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کی تین قسمیں ہیں ۔ ١۔ صفات توحید وتجرید جن سے اس کی تنزیہہ ہوتی ہے ۔ ٢۔ مجازات جو بطور مجازوتجور کے استعمال ہوتی ہیں اور مقصود بالذات نہیں ہوتے ۔ ٣۔ شؤن وحالات ، یعنی وہ الفاظ جو اللہ تعالیٰ کے حالات وشؤن سے تعرض کرین ، اور کسی مستقل وصف کو نہ بیان کریں ، استوی اسی قبیل سے ہے تفصیل کے لئے دیکھو ابتدائی حواشی ۔ حل لغات : عمد : ستون ۔