لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ۗ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلَٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
یقینا ان قوموں کے واقعات میں عقل والوں کے لیے بڑی عبرت تھی (٩٨) یہ قرآن کوئی ایسا کلام نہیں ہے جسے کسی نے گھڑ لیا ہے، یہ تو آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، جو پہلے نازل ہوچکی ہیں اور اس میں ہر بات کی تفصیل ہے، اور یہ اہل ایمان کے لیے ذریعہ ہدایت اور باعث رحمت ہے۔
تفصیل کی تفصیل ! (ف ٢) ارشاد فرمایا کہ ان قصص میں صاحب عقل وخرد لوگوں کے لئے عبرت وموعظت کے اسرار پہناں ہیں ، یہ افتراء اور جھوٹ نہیں بلکہ کتب سابقہ کے مضامین ہیں ، جن کو ان کی اصلی حالت میں پیش کیا گیا ہے ۔ اس پیغام رشد وہدایت میں دین کی تمام گتھیوں کو سلجھایا گیا ہے ، اور تمام مسائل کو اس طرح بسط وتفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ کہ دلوں میں شکوک وشبہات کے کانٹے اب باقی نہیں رہنا چاہئیں یہ واضح رہے ، کہ یہاں جس تفصیل کا ذکر ہے ، وہ اصول سے تعلق رکھتی ہے ، یعنی ضروریات دین کو استیعاب سے بیان کیا گیا ہے ، اور کسی بنیادی اور ضروری مسئلہ کو تشنہ وضاحت نہیں رہنے دیا گیا یہ مقصد نہیں کہ اس میں وہ تفصیلات بھی مذکور ہیں جن کی جستجو ہمیں محنت کے دفتروں میں کرنی چاہئے یا جو جزئیات وفروع سے متعلق ہیں ۔ حال لغات : استایئس : یاس سے ہے ناامید ہوگیا ۔ ظنوا : وہم وگمان سے لے کر خیال غالب اور یقین کے جلب مراتب تک ظن کا لفظ بولا جاتا ہے ۔