سورة یوسف - آیت 42

وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اور ان دونوں میں سے جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ نجات پاجائے گا اس سے کہا (٣٨) کہ اپنے بادشاہ سے میرے بارے میں بات کرنا، لیکن شیطان نے اس کے دماغ سے یہ بات بھلا دی کہ بادشاہ کے سامنے ان کا تذکرہ کرتا، اس لئے انہیں کئی سال تک جیل میں رہنا پڑا۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

ذریعہ حضوری : (ف1) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دونوں خواب دیکھنے والوں کو تعبیر بتلائی ایک سے کہا تو ساقی گری کے عہدہ کو سنبھالے گا اور دوسرے سے کہا تو سولی دیا جائے گا ، اور پرندے تیرا گوشت نوچ نوچ کے کھائیں گے ، جس کے متعلق انہیں خیال تھا کہ یہ فرعون مصر کا ساقی ہوگا ، اس سے کہا کہ مجھے یاد رکھیو ، اور موقع پا کر بادشاہ سے میرا ذکر کیجو اتفاق کی بات ہے کہ وہ رہا ہو کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے عہد کو بھول گیا ، اور اس طرح مدت تک آپ کو جیل میں رہنا پڑا ۔ بعض لوگوں نے ﴿فَأَنْسَاهُ الشَّيْطَانُ کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی جانب منسوب کیا ہے یعنی یہ مقام نبوت کے منافی ہے کہ آپ پیغمبر ہو کر مصائب سے گھبرا جائیں ، اور ایک مخلوق سے اعانت کے طالب ہوں ، اس بھول کی یہ سزا تھی کہ آپ کو مدت تک جیل میں رہنا پڑا مگر یہ صحیح نہیں جیل میں رہنا کوئی محبوب شغل نہیں ، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اگر رہائی کے لئے کوشش کی تو یہ بالکل جائز اور بہتر بات تھی اس میں بےصبری کی کوئی بات نہیں ۔