سورة ھود - آیت 69

وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ ۖ فَمَا لَبِثَ أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری (٥٦) لے کر آئے انہوں نے کہا، سلام علیکم ابراہیم نے کہا سلام علیکم پھر جلد ہی ایک بھنا ہوا بچھڑا لے کر آئے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مہمانوں سے حسن سلوک : (ف ٢) یہاں سے حضرت لوط (علیہ السلام) کا قصہ شروع ہوتا ہے بطور تمہید کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر بھی آگیا ہے ، یہی وجہ ہے ، اس قصہ کا انداز بیان دوسروں سے مختلف ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ میں دو باتیں ایسی بیان کی ہیں جن کا تعلق آداب یا عوائد رسمیہ سے ہے جب فرشتے حضرت اسحاق کی تولید کی خوشخبری لے کر آئے تو فورا ہی انہوں نے السلام علیکم کہا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی سلام کہہ کر جواب دیا جس کا مقصد یہ کہ مسلمان جب ایک دوسرے سے ملیں تو سلسلہ گفتگو ان میں علیک سلیک سے شروع ہو ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس رسمی گفتگو کے بعد مہمانوں کے سامنے ماحضر پیش کیا جس سے معلوم ہوا کہ مسلمان میں مہمان نوازی کا جذبہ بہت پرانا ہے ۔ حل لغات : جثمین : سینہ کے بل اوندھے پڑے ہوئے بےحس وحرکت شدگان وہلاک شدگان ۔ حنیئذ : بھنا ہوا ، اوجس : دل میں محسوس کیا ۔