وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ
اور آپ ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق کشتی (٢٦) بنایے، اور ظالموں کی نجات کے سلسلے میں ہم سے بات نہ کیجیے، وہ بلا شبہ ڈبو دیئے جائیں گے۔
(ف ١) نوح (علیہ السلام) کی قوم نے جب بہت زیادہ مخالفت کی اور پندوعظ سے کامل بیزاری کا اظہار کیا ، تو اللہ کا غضب بھڑکا ، ارشاد ہوا ، کشتی طیار کرو ، ایک عذاب بھیجا جائے گا ، جس سے یہ ہمکنار ہوں گے اور بچ نہیں سکیں گے ، اور جو لوگ اس قابل ہیں کہ صفحہ ہستی سے مٹا دیئے جائیں ، ان کے متعلق سفارش نہ کی جائے ، کیونکہ منشاء ایزدی یہ ہے کہ کفر کا مکمل استیصال کردیا جائے ، اور انہیں بتا دیا جائے کہ خدا کی زمین پر ایسے مجرموں کو بےصرف اور آسائش سے رہنے کا کوئی حق نہیں ، اللہ تعالیٰ زمین کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کرنا چاہتا ہے ۔ ” ربا عیننا “۔ سے غرض نگرانی ہے یعنی ہماری ہدایات کے مطابق یہ مجازی استعمال ہے ، قرآن حکیم ہیں اس نوع کے جس قدر الفاظ وارد ہوئے ہیں ، سب میں مجازی رنگ ہے ، ورنہ وہ تو خود آنکھیں بخشتا ہے ، اور آنکھوں میں نور پیدا کرتا ہے اسے آنکھوں کی حاجت نہیں ، وہ بغیر آلات وجوارح کے کامل ہے ۔