وَيَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۚ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ إِنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ وَلَٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ
اور اے میری قوم کے لوگو ! میں تم سے دعوت و تبلیغ (٢١) کے عوض مال و دولت نہیں مانگتا ہوں، میرا اجر و ثواب تو صرف اللہ دے گا، اور میں ایمان والوں کو اپنے پاس سے نہیں بھگا سکتا ہوں، اس لیے کہ وہ یقینا اپنے رب سے ملیں گے، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ نہایت ہی نادان ہو۔
دوسرے اعتراض کا جواب : (ف ١) سب سے پہلے قرآن حکیم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی زبان سے دوسرے اعتراض کا جواب دیا ہے اس لئے کہ وہ باوجود بشریت کے حضرت نوح (علیہ السلام) کو پیغمبر مان سکتے تھے ، مگر یہ ان کے کبر وغرور کے لئے قطعا ناقابل برداشت تھا کہ وہ غرباء کم درجہ لوگوں کے دین کو قبول کرلیں ، حضرت نوح (علیہ السلام) نے جوابا ارشاد فرمایا ، میں اپنے دعاوی میں سچا ہوں ، اللہ تعالیٰ نے مجھے صداقت کے دلائل عنایت فرمائے ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ تمہیں حق کی راہ سوجھائی نہیں دیتی ، میں تم سے کچھ اجر طلب نہیں کرتا ہوں ، کہ مخلص دیندار غربا کو اپنے پاس سے ہٹا دوں ، تم جاہل ہو اس لئے افلاس وغربت کو معیوب سمجھتے ہو ، اللہ کے نزدیک دیندار مفلس ، سرمایہ دار کافر سے بہتر ہے ، البتہ اگر افلاس برا ہے ، تو تنگدستی کا افلاس نہیں اگر اخلاق و ایمان کا افلاس برا ہے ، اللہ کے نزدیک ذلیل وہ ہے ، جو اخلاق سے تہی دامن ہے اور بجز ذات حق تعالیٰ کے ہر کہ ومہ مخلوق فقیر اور حاجت مند ہے ۔ (آیت) ” واللہ الغنی وانتم الفقرآء “۔