فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ
پس قوم یونس کے علاوہ کوئی اور بستی ایسی کیوں نہ ہوئی جو (عذاب آنے سے پہلے) ایمان (٦٣) لے آتی تاکہ اس کا ایمان اسے نفع پہنچاتا، جب قوم یونس کے لوگ ایمان لائے تو ہم نے دنیاوی زندگی میں رسوا کن عذاب کو ان سے ٹال دیا اور ایک وقت مقرر تک انہیں فائدہ اٹھانے دیا۔
قوم یونس : (ف ١) لولا تحضیضیہ ہے ، فھلا کے معنوں میں جیسا کہ حضرت ابی اور عبداللہ بن مسعود (رض) کے مصحف میں تصریح ہے ۔ غرض یہ ہے کہ تباہ شدہ قوموں نے آخری وقت ایمان وتوبہ کا اظہار نہیں کیا آیت میں اظہار مستحسر ہے کہ کیوں ان قوموں کو توبہ کی توفیق نہ ہوئی اور کیوں عذاب الہی سے نہ بچ گئے ؟ (آیت) ” الا قوم یونس “۔ میں الا منقطعہ ہے غرض یہ ہے کہ صرف یونس (علیہ السلام) کی قوم ایسی ہے جنہوں نے عذاب کے علامات وآثار دیکھ کر خالص توبہ کی اور ان پر سے اللہ نے عذاب دور کردیا ، یہ غلط فہمی نہ رہے کہ قرآن نے کسی عذاب کی پیشگوئی کا ذکر نہیں فرمایا ارشاد صرف یہ ہے کہ قوم یونس (علیہ السلام) کی نافرمانی کی وجہ سے عذاب کے علائم وآثار ظور پذیر ہوئے مگر وہ سنبھل گئے چونکہ مقصد عذاب میں مبتلا کرنے کا نہ تھا اس لئے معاف کر دئیے گئے ، سابقہ پیشگوئی کا تقاضا یہ تھا کہ وہ بہرحال پوری ہو کر رہتی ، کیونکہ پیشگوئی کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ وہ آخر تک ایمان کی نعمت سے محروم رہیں گے ، لہذا خلف وعید کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔