فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
پس اگر آپ کو اس کتاب کی صداقت میں شبہ (٦١) ہو جو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے، تو ان لوگوں سے پوچھ لیجیے جو آپ کی بعثت کے پہلے سے آسمانی کتابیں پڑھتے رہے ہیں، آپ کے پاس آپ کے رب کی جانب سے حق آچکا ہے، تو آپ شبہ کرنے والوں میں سے نہ بن جایے۔
(ف ١) قرآن حکیم کا انداز بیان ہے کہ مخاطب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا جاتا ہے اور مقصود دوسرے ہوتے ہیں ، کیونکہ آپ ترجمان وحی ہیں اور انسانیت کے وکیل بھی اس لئے اللہ تعالیٰ بالوحی انہیں سے تخاطب فرماتے ہیں ، ورنہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شک وریب سے پاک ہیں ، وہ تو سراپا یقین و ایمان ہیں ، حضرت ابن عباس (رض) سعید بن جبیر ، (رض) قتادہ (رض) اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ” لم یسئلک رسول اللہ “۔ یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی شک نہیں پیدا ہوا ۔ اور غور فرمائیے جو دوسروں کو ایمان ویقین کی نعمتیں بانٹ رہا ہے ، جو دلوں کو نور ومعرف سے اجاگر کر رہا ہے کیا وہ خود سرمردود ہو سکتا ہے ۔ غرض یہ ہے کہ قرآن سابقہ کتب کا موید ہے توریت وانجیل میں صدہا پیش گوئیاں موجود ہیں ، جو قرآن کی صداقت پر دال ہیں ۔ حل لغات : حقت علیم کلمت ربک : یعنی جن کی فطرت کے متعلق پہلے سے علم ہے کہ یہ حق کی طرف رجوع نہیں کرینگے وہ کیونکر ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں ۔