صِبْغَةَ اللَّهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ
(اے یہود و نصاری) اللہ کا رنگ (٢٠١) اختیار کرلو، اور اللہ کے رنگ سے اچھا کون سا رنگ ہوسکتا ہے، اور ہم اسی کی بندگی کرتے ہیں
انکار کا نتیجہ : (ف ٣) ان آیات میں بتایا کہ ایمان وہی ثمر و سود مند ہے جو کامل ہو ، یعنی پورے نظام اسلامی کو مانا جائے ورنہ راہ راست سے بھٹک جانے کا خطرہ ہے اور وہ لوگ جو اسلام کے نظام وحدت پر عمل پیرا نہیں ہیں ، ان کا شقاق واختلاف کے مرض ہیں مبتلا رہنا لازمی وناگزیر ہے ، اس لئے کہ اسلام کے سوا جتنی راہیں ہیں ‘ ان سب میں تعصب وجہالت کے کانٹے بچھے ہیں ، سب غیر مستقیم ہیں ، اسلام اور صرف اسلام ہی رواداری ، مسالمت اور اطاعت حق کا سچا مبلغ ہے ۔ الہی رنگ : حضرت قتادہ (رض) سے روایت ہے کہ صبغ فلان سے مراد کسی خاص عقیدہ کی تلقین کرنا ہے یعنی صبغۃ اللہ سے مراد اللہ کا دین ہے ، دین کو اللہ کے رنگ سے تشبیہہ دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ دل بمنزلہ سفید کپڑے کے ہے اسی لئے (آیت) ” وثیابک فطھر “ میں کپڑوں سے مراد دل ہے جس کو مختلف انواع کے رنگوں سے رنگ لیا جاتا ہے کوئی یہودی ہے اور کوئی عیسائی کوئی مجوسی ہے اور کوئی آتش پرست ، قرآن حکیم کہتا ہے ، اللہ کا رنگ ان سب الوان سے جدا ہے اور بہتر ہے اس میں یہودیت بھی ہے اور عیسائیت بھی ، اس میں تعصب وجہالت کا کوئی رنگ نہیں (آیت) ” ونحن لہ عبدون “ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ مسلمان جس رنگ میں ظاہر ہوتا ہے ‘ وہ عبودیت اور خاکساری ہے ، وہ ہر وقت اللہ کی فرمانبرداری واطاعت میں مصروف نظرآئے گا اس کی زندگی کو کوئی لمحہ ضائع نہیں ہوتا ۔ اس کی پہچان خدا کی عبادت ‘ اس کی محبت اور اپنی عبودیت کا اظہار ہے نیز اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ عیسائی جو اصطباغ کو بہت بڑی دینداری سمجھتے ہیں ‘ وہ جان لیں کہ ظاہر داری کے رنگ چھڑک دینے سے کوئی نجات کا مستحق نہیں بن سکتا ، رسم اصطباغ سے کپڑے تو رنگے جا سکتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ دل بھی خدا کے رنگ میں ڈوب جائیں ، اس لئے ان ظاہر پرستیوں کو چھوڑ کر روح وباطن کی طرف عود کرو اور رسوم و رواجات سے پلٹ کر حقائق ومعارف کی جانب بڑھو کہ خدا کو ظاہر داریاں پسند نہین جن میں ذرہ بھر شائبہ خلوص نہ ہو وہ تو دل کی گہرائیوں میں خلوص ومحبت کے خزانے دیکھنا چاہتا ہے ۔ حل لغات : اسباط : جمع سبط ، ۔ اولاد ، شقاق ، اختلاف ۔ صبغۃ : رنگ ، احسن ، اچھا مادہ حسن ۔