وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ وَأَخِيهِ أَن تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
اور ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی کے پاس وحی (٥٦) بھیجی کہ تم دونوں اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر مہیا کرو، اور اپنے ان گھروں کو مسجد بنا لو اور پابندی کے ساتھ نماز ادا کرو، اور اے موسیٰ آپ مومنوں کو خوشخبری دے دیجیے۔
(ف ١) قبلۃ : سے غرض یا تو یہ ہے کہ فرعون نے جب عام کلیساؤں میں بنی اسرائیل کو عبادت سے روک دیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم گھروں میں نماز پڑھ لیا کرو ، اور گھر اس نوع کے بناؤ کہ وہ قبلہ رو ہوں اور بیک وقت اس سے عبادت وسکونت کے دونوں کام لئے جائیں ، اور یا یہ مقصد ہے کہ رہائش مکان باہم متقابل بناؤ یعنی تمہاری ایک الگ نو آبادی ہونی چاہئے ، تاکہ آزادی سے تم ایک دوسرے کی مدد کرسکو ، کامیابی کے لئے نماز دوسری شرط ہے کیونکہ یہی ایک ذریعہ ہے جس سے قوم میں صحیح بیداری پیدا کی جا سکتی ہے یہ وحدت فی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ، نماز سے قوم میں خدا پرستی ، خدا ترسی اور باہمی محبت کے جذبات زندہ رہتے ہیں ، قوم میں اجتماعی زندگی کے بسر کرنے کی استعداد پیدا ہوتی ہے آج بھی کامیابی کے لئے نماز ویسی ہی ضروری ہے جیسی ابتداء میں تھی ، مسلمان اگر جرات واستقلال کی نعمتوں سے بہرہ ور ہونا چاہتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اس کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ نماز ہے مسلمان کا نصب العین دوسری قوموں سے بالکل جدا ہے اور اس کا طریق جدوجہد دوسری قوموں سے الگ ہے ، مسلمان کی فطرت میں دینداری ہے ، یہ دین کے احیاء کے لئے زندہ ہے ، یہ مال دولت بھی چاہتا ہے آسائش وراحت کا بھی خواہاں ہے ، مگر صرف اس لئے کہ اللہ کے دین کو دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچا سکے ، اصل مقصود اور نصب العین حصول دین اور دین کی اشاعت ہے یعنی یہ اگر آزادی حاصل کرنا چاہتا ہے تو صرف دین کے لئے تاکہ خدا کی پرستش کے آزادانہ مواقع حاصل ہو سکیں ، وہ اس لئے کہ الحاد پھیلے ، وہ آزادی جو غلط اور غیر مشروع وسائل سے حاصل کی جائے گی مسلمان کے لئے مفید نہیں ۔ حل لغات : لیضلوا : کام غایت وعاقبت کے لئے ہے یعنی ان کی دولت وثروت کا حال یہ ہے کہ لوگ گمراہ ہوں ۔