بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ
بلکہ انہوں نے ایسی حقیقت کو جھٹلا دیا (٣٤) ہے جس کا انہیں پورا علم ہی نہیں ہے، اور ابھی تک ان کے سامنے اس کی پوری حقیقت کھل کر نہیں آئی ہے، اسی طرح ان لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا جو ان سے پہلے تھے، تو آپ دیکھ لیجیے کہ ظالموں کا کیا انجام ہوا۔
(ف ١) یہ قرآن حکیم کا وہ مطالبہ ہے کہ جس نے چودہ سوسال سے دنیا ، کفر وعناد میں تہلکہ بپا کر رکھا ہے ، قرآن حکیم کہتا ہے تمہیں اگر میرے منزل من اللہ ہونے میں شبہ ہے تو تم پوری قوت واستعداد کے ساتھ مقابلہ پر آجاؤ فصاحت وبلاغت کے سازوسامان کے ساتھ مسلح وآراستہ ہو کر آؤ تم میں یہ ہرگز جرات پیدا نہیں ہو سکے گی کہ تم ایک سورت بھی قرآن کے مقابلہ تصنیف کرسکو ، یہ چیلنج ان لوگوں کو دیا گیا جن کا بچہ بچہ شاعر تھا ، فصاحت وبلاغت جن کی بےدم کنیز تھی جن کی گھٹی میں حذاق سخن پڑا تھا مگر کسی کی ہمت نے قرآن کے اعلان مقابلہ کو قبول نہیں کیا ، یہ چیلنج آج بھی موجود ہے ، دنیا ترقی کی بہت سی منزلیں طے کرچکی ہے عربی کی قید نہیں ، وقت ومکان کی شرط نہیں ، کوئی قوم کسی وقت ایسا کلام پیش کرے ، جس میں قرآن کی سی معرفت اور حقائق ہوں ، قرآن کی سی جامعیت ہو ، جو قرآن کی طرح زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہو ، اور پھر فصاحت وبلاغت کا بھی یہ درجہ ہو کہ لوگ سنیں اور آویزہ گوش بنائیں ، اگر کفر میں دم خم ہے ، اور قرآن کو وہ حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے تو اسے آج بھی دعوت مقابلہ ہے ، قرآن اللہ کی کتاب ہے ، اس لئے انسانی طاقت سے باہر ہے کہ وہ اس کے ہم پلہ کتاب لکھ سکے ، اس لئے جن لوگوں کو قدرت نے سوچنے کا مادہ عطا فرمایا ہے انہیں اس حقیقت پر غور کرنا چاہئے اور قرآن کی برکات سے مستفید ہونا چاہئے ۔