قُل لَّوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُم بِهِ ۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
آپ کہہ دیجیے کہ اگر اللہ نے چاہا ہوتا تو میں تمہارے سامنے اس کی تلاوت نہ کرتا، اور اللہ تمہیں اس کی خبر نہ دیتا، میں تو تمہارے درمیان اس سے پہلے ایک عمر گزار چکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ہو۔
معیار رسالت : (ف ١) مکہ والوں نے جب قرآن کی تبدیلی کا مطالبہ کیا تو جوابا فرمایا گیا کہ یہ ناممکن ہے ، انبیاء کو اپنی جانب سے تعلیمات الہیہ میں کمی بیشی کرنے کا مطلقا اختیار نہیں دیا گیا ، وہ تو محض اللہ کے قرابت اور اطاعت شعار ہوتے ہیں منصب نبوت کا مقصد ہی یہی ہے ۔ کہ نفس کی ترجمانی نہ ہو ، منشاء الہی کی تعمیل ہو ، پھر انبیاء سے یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ پیغام خداوندی کو بدل دیں ، ان آیات میں ایک اور طریق سے جواب دیا گیا ہے حضور دعوی نبوت سے قبل چالیس سالہ زندگی کفار مکہ کے سامنے تھی ، آپ سے کہا گیا ہے کہ ان سے پوچھیں کہ کیا تم نے کبھی کوئی بات چالیس (٤٠) سال کے طویل عرصے میں ایسی دیکھی ہے جو قابل اعتراض ہو ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بےلوث بچپن انہوں نے دیکھا ، جوانی دیکھی اور جوانی کے پاکیزہ مشاغل دیکھے ، اور اب جبکہ آفتاب شباب نصف النہار سے آگے گذر چکا ہے ، تم یہ سمجھتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نفس کی خواہشات کا شکار ہوچکا ہے ، اور محض جاہ وحشمت کے لئے نبوت کا مدعی ہے ، یہ بات کبھی عقل تسلیم کرسکتی ہے ، کہ جو شخص چالیس (٤٠) برس تک پاکباز رہے ، صادق وامین کہلائے جس کا خیال وعمل معصیت کی آلودگیوں سے پاک رہے ، بنی نوع کا ہمدرد وغمگسار ہو ، اور شاندار سیرت کا مالک ہو ، یکایک اس کی سیرت بدل جائے ، اور وہ خدا پر جھوٹ بولنے لگے ، یہ کیسے ممکن ہے ؟ کیونکر ایک پاکباز انسان اتنے بڑے جھوٹ کی جرات کرسکتا ہے ۔ ” عمرا من قبلہ “ سے غرض شاندار اور غیر معمولی اور معلوم عمر ہے ، کیونکہ کسی شخص کے متعلق کسی برائی کا علم نہ ہونا اور چیز ہے اور اس شخص کا نیک ہونا اور اس طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی نبوت کے قبل کے واقعات زندگی لوگوں کو معلوم ہوں ، اور ان میں وہ بلندی اور رفعت کے لحاظ سے شہرت رکھتا ہوں ورنہ ہر شخص جس کے حالات سے آپ پوری طرح آگاہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ میری پہلی زندگی میں کوئی عیب دکھاؤ ۔