إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا ۖ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ۚ إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ ۚ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ
تم سب کو اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے (٦)، اللہ نے سچا وعدہ کر رکھا ہے، بیشک وہی انسان کو ابتدا میں پیدا کرتا ہے، پھر اسے قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرے گا، تاکہ پورے انصاف کے ساتھ ان لوگوں کو اچھا بدلہ (٧) عطا کرے جو ایمان لائے اور عمل صالح کیا، اور کافروں کو ان کے کفر کے سبب کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب دیا جائے گا۔
(ف ١) اس آیت میں حشر ونشر کا ثبوت دیا گیا ہے قرآن چونکہ مدلل کتاب ہے اس لئے کوئی دعوی تشنہ برہان نہیں رہنے دیا ، امکان حشر کے متعلق فرمایا (آیت) ” انہ یبدؤالخلق “۔ کہ وہ اس وقت کائنات کو وجود میں لاتا ہے ، جب کہ وہ کہیں موجود نہیں ہوتی ، بلکہ خود وجود اس کی قدرت کا کرشمہ ہے ، اس لئے جب کائنات کی کیفیت فنا ہوجائے گی ، تو اس وقت بھی اسے دوبارہ پیدا کیا جا سکتا ہے ، جو بات ایک دفعہ ممکن ہے ، وہ دوسری بار کیوں محال ہو ، ضرورت حشر کے متعلق ارشاد فرمایا ، (آیت) ” لیجزی الذین امنوا وعملوا الصلحت بالقسط “۔ یعنی تاکہ صلحاء اور پاکباز لوگوں کو اجر سے بہرہ ور کیا جائے ، اس دنیا میں مکافات عمل کا پورا سامان وانتظام نہیں ہوسکتا ہے ، ایک شخص ڈاکو ہو ، چور ہو ، اور قوم وعدالت کی گناہوں میں معزز ہو ، یہ بھی ممکن ہے ، ایک شخص نیک اور پاکباز ہو ، مگر عوام میں اس کی بدعملی کا شہرہ ہو ، اس لئے ضرورت ہے ، ایک ایسے عالم کے فرض کرنے کی جہاں عدل وظلم میں حلو فاصل موجود ہو ، جہاں نیک وبد میں امتیاز ہو ، جہاں کی عدالتیں جرم سے اغماض نہ کرسکیں ، اور ایک پاکباز انسان کو پاکبازی کی پوری پوری قیمت مل سکے ، یہی عالم آخرت ہے جسے اسلام پیش کرتا ہے ۔