وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ
اور یہ بات مناسب نہیں ہے کہ تمام ہی مومنین جہاد کے لیے چلے جائیں (٩٧) ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہر جماعت کے کچھ لوگ نکلیں، تاکہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور جب اپنی قوم کے پاس واپس لوٹیں تو انہیں اللہ سے ڈرائیں تاکہ وہ برے کاموں سے پرہیز کریں۔
عسکری ترتیب : (ف ١) آیت کا نزول سیاق جہاد میں ہوا ہے ، اس لئے تفقہ فی الدین سے غرض عسکری ترتیب اور ٹریننگ ہے ، یعنی جہاد کا اذن عام ہوجائے ، تو سب لوگ نہ نکل کھڑے ہوں بعض ایسے بھی رہیں جو غازیوں کی تربیت کریں اور انہیں جنگ کے رموزواسرار سے آگاہ کریں ، بات یہ تھی کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاد کے لئے اعلان فرماتے تو تمام صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین شوق شہادت میں غزوہ کے لئے تیار ہوجاتے ، اور مدینہ طیبہ بالکل خالی ہوجاتا اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ بعض لوگوں کو تعلیم وتربیت کے لئے پیچھے رہنا چاہئے جہاد کے لئے لوگوں کو تیار کرنا یہ بھی تو جہاد ہے ۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہ آیت طلب علم کے لئے مستقل وبالذات ہے ، اسے سیاق وسباق سے کوئی تعلق نہیں غرض یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کا مشغلہ کتاب وسنت کی خدمت ہو ، جو دین سیکھیں اور دوسروں تک پہنچائیں یعنی دونوں گروہ خدمات تقسیم کرلیں کچھ سیاسیات کے لئے وقف رہیں اور کچھ عملی مشغلوں کے لئے ۔