وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
اور مہاجرین اور انصار میں سے وہ اولین لوگ (٧٧) جنہوں نے ہجرت کرنے اور ایمان لانے میں دوسروں پر سبقت کی، اور وہ دوسرے لوگ جنہوں نے ان سابقین کی اخلاص کے ساتھ پیروی کی، اللہ ان سب سے راضی ہوگیا، اور وہ سب اللہ سے راضی (٧٨) ہوگئے، اور اللہ نے ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے یہی عظیم کامیابی ہے۔
سند رضا : (ف ٢) اس آیت میں وضاحت کے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ وہ صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین جن کو ایمان میں سبقت کا فخر حاصل ہوا ہے اور مہاجر ہوں یا انصاری اور وہ لوگ جن کو ان کی پیروی کی سعادت نصیب ہوئی ہے مقام رضاء پر فائز ہیں ، یعنی اللہ ان سے خوش ہیں ، اور وہ ہمیشہ اس کی رضاء کے جویاں رہے ، ان کے لئے جنات خلد کے جواب کھلے ہیں ، اور یہی فوز عظیم کی خوشخبری ہے جس سے وہ بہرہ مند ہیں ، کہئے وہ لوگ جو صحابہ کی شان میں گستاخی سے پیش آتے ہیں ، اور ان لوگوں کی توہین کرنا جزو ایمان سمجھتے ہیں ، جو جب تک زندہ رہے ، پیغمبر کی آنکھوں کا نور ہے ، اور جب مرے تو رضا الہی کی سند حاصل کر کے کیا یہ بدبختی ومحرومی نہیں اور کیا اس سے بڑھ کر الحاد وبے دینی کا اور کا تصور کیا ہو سکتا ہے ۔ ان لوگوں کی عقل ودانش پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے ، یہ بدبخت دین حنیف کو گویا خود صاحب دین سے زیادہ سمجھتے ہیں ، اور معاذ اللہ خو پیغمبر سے زیادہ دین کا درد اپنے پہلوم میں رکھتے ہیں پیغمبر تو ان اصحاب کو اپنی محفل میں جگہ دے انکو شرف مصاہرت سے نوازے ، ان کو اپنے عزیز اور دوست قرار دے اور عمل سے واضح کر دے کہ یہ میرے پیارے ہیں ، اور یہ کہیں کہ نہیں یہ دوست نہیں دشمن ہیں ۔ حل لغات : مردوا : اس کے معنی سرکشی کے بھی ہیں اور نیکی سے طبعی محرومی کے بھی اسی مناسبت سے شیطان کو مارد کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔