لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَىٰ وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
کمزوروں (69) کے لیے گناہ کی بات نہیں، اور نہ مریضوں کے لیے اور نہ ان کے لیے جن کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں، اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے مخلص اور خیر خواہ ہوں، نیک لوگوں پر الزام لگانے کی کوئی وجہ نہیں اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے
جہاد سے کون کون مستثنے ہیں : (ف ١) جہاد ایک اہم اسلامی فریضہ ہے ، جس میں تساہل وتخلف جائز نہیں ، اس آیت میں بتایا ہے کہ مندرجہ ذیل لوگ عموم حکم سے مستثنے قرار پائیں گے ۔ (١) الضعفاء یعنی کمزور وناتوان اشخاص ۔ (٢) مریض ۔ (٣) مفلس ، یعنی جس کے پاس جہاد کی تیاری کے لئے سامان نہ ہو ۔ (٤) جوسواری نہ رکھتا ہو ۔ غرض یہ ہے کہ جہاد میں شرکت کے لئے اچھے طبقے کے لوگ جائیں ، جن کی رگوں میں خون دوڑ رہا ہو ، جو جہاد میں اپنے مصارف برداشت کرسکیں ، جن کے پاس آلات جہاد ہوں اور جنہیں ہر طرح سپاہی قرار دیا جاسکے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد بابرکت میں کوئی متعین فوج نہ تھی بلکہ ہر شخص بجائے خود سپاہی تھا ، اور ذمہ داری کے فرائض کو پہچانتا تھا اس لئے ہر سپاہی کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ آلات جہاد حتی المقدور خود مہیا کرے ، یہ لوگ جو مستثنے قرار پائے ہیں ، ان کے لئے خلوص ومودت شرط ہے ، یہ ضروری ہے کہ دلوں میں جہاد کا زبردست جذبہ موجود ہو ، اس حد تک کہ جانبازی ذاتی شوق کی صورت اختیار کرلے ، اور جب یہ شوق معذوری کی وجہ سے پورا نہ ہو ، تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں ۔ یہ صرف حکم نہیں قرون اولے کے مسلمانوں کی سچی تصویر ہے ، کہ ان کے دلوں میں کس درجہ جہاد سے محبت تھی ۔