وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ
اور ان میں سے جو کوئی مر گیا اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیے (64) اور اس کی قبر کے پاس نہ کھڑے ہوئیے، انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کردیا اور ان کی موت حالت کفر میں ہوگئی۔
دریائے رحمت کی طغیانی : (ف1) عبداللہ بن ابی ابن سلول جو رأس المنافقین تھا ، جب مرا ہے تو اس کا لڑکا حضور (ﷺ) کے پاس آیا ، اور تبرکا آپ سے کرتہ مانگا ، یہ بھی درخواست کی کہ آپ نماز جنازہ پڑھائیں ، آپ تیار ہوگئے ، حضرت عمر (رض) نے روکا ، اور کہا اللہ نے تو استغفار سے روکا ہے منافق کا جنازہ نہ پڑھنا چاہئے ، مگر رحمت جوش پر آئی ہوئی کب رکتی ہے حضور (ﷺ) نے فرمایا مجھے اختیار دیا گیا ہے ، روکا نہیں گیا ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور حضور (ﷺ) کی رحمت کو اس فراوانی و طغیانی سے تعبیر کیا گیا ، اور عمر (رض) کی فراست دینی کی داد میں۔