وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ۚ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ ۚ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور ان منافقین میں بعض ایسے ہیں جو نبی کو ایذا پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ کان کا ہلکا (47) ہے (ہر ایک کی سن لیتا ہے) آپ کہئے کہ وہ تمہارے لیے خیر کی باتیں سنتا ہے، اللہ پر یقین رکھتا ہے، اور مومنوں کی باتوں پر بھروسہ کرتا ہے، اور تم میں سے ایمان والوں کے لیے وہ سراپا رحمت ہے، اور جو لوگ اللہ کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے
(ف ٢) انبیاء علیہم السلام جہاں انتہاء درجہ کے زیرک ودانا ہوتے ہیں وہاں عفو و کرم کا مادہ بھی ان میں اسی تناسب سے موجود ہوتا ہے وہ حالات کو جانتے ہیں ، مگر بوجہ مرحمت کے اکثر غلطیوں سے درگزر کرتے ہیں ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافقین آ کر طرح طرح کے عذر سناتے ، آپ قبول فرما لیتے ، اس پر وہ اپنی مجلسوں میں کہتے رسول کیا ہے نراکان ہے ، سن لیتا ہے ، جانتا نہیں کہ ہم اسے دھوکا دے رہے ہیں ، کم بختو ! اس میں تو تمہارا ہی بھلا ہے رسول تو سراپا رحمت وعفو ہے ، جسے تم سادگی پر محمول کرتے ہو ، وہ چشم پوشی اور ستاری ہے ، یہ تنبیہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوئی ۔