وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ بَل لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ كُلٌّ لَّهُ قَانِتُونَ
اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے (اپنے لیے) اولاد (١٧٠) بنائی ہے، اللہ پاک ہے، بلکہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اس کی ملکیت ہے، ہر چیز اس کے آگے گردن جھکائے ہوئی ہے
خدا کا کوئی ولد نہیں : (ف ٢) اسلام سے پہلے مشرک فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے ، حضرت مسیح (علیہ السلام) خدا کے اکلوتے اور پہلوٹھے بیٹے ہیں ، قرآن حکیم کہتا ہے سبحانہ یعنی اللہ جل جلالہ اس قسم کے مشرکانہ اوصاف سے پاک ہیں : دلیل یہ ہے کہ ساری کائنات اس کے قبضہ قدرت میں ہے ، ہر چیز اس کی تسبیح وقنوت میں مصروف ہے ، آفتاب سے لے کر ذرہ تک سب اس کی حمد وثنا کر رہے ہیں ، کیا تمہیں آسمانوں اور زمینوں میں کوئی اور قوت کار فرما نظر آتی ہے ؟ فرشتے بھی اس کے محکوم ہیں ، حضرت عزیز (علیہ السلام) اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو بھی اس نے پیدا کیا ہے اور دوسری مخلوق کو بھی ، کیا ایک قانون بھی قدرت کا ایسا ہے جس سے فرشتے بےنیاز ہوں اور عزیز ومسیح علیہما السلام الگ ‘ کیا فرشتے اس کے حکموں کے ماتحت نہیں ؟ اور کیا عزیر (علیہ السلام) ومسیح (علیہ السلام) تمام انسانی عوارض سے مبرا ہیں ؟ پھر (آیت) ” کل لہ قانتون “۔ کی اس صداقت کے بعد شرک کے لئے کیا گنجائش رہ جاتی ہے ، دوسری دلیل اس کی توحید وتفرید پر یہ ہے کہ اسے اقنوم وشریک کی کیا ضرورت ہے ، جبکہ اس کی قدرتیں غیر محدود طور پر وسیع ہیں ، اس نے آسمان وزمین کی تمام کائنات بغیر کسی ساجھی اور دوست کی اعانت کے پیدا کی ہے ، اگر کوئی دوسرا خدا ہوتا تو اس کی ضرورت اس آفرینش کے وقت تھی نہ اس وقت جبکہ وہ سب کچھ پیدا کرچکا اس کی قدرت کا غیر مبہم کمال یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا فیصلہ کرلے ‘ وہ پیدا ہوجاتی ہے ، اسے کسی مادہ یا کسی مستعد تخلیق چیز کی حاجت نہیں ہوتی ، وہ اپنے ارادے سے اپنی قدرت سے اپنے کمال الوہیت سے ساری کائنات کو پیدا کرلیتا ہے پھر ایسے قادر مطلق ، ایسے مرید باجبروت اور ایسے کامل خدا کے لئے اقانیم کی کیا حاجت ہے ؟ کن کہنا اور دنیا کا پیدا ہوجانا یہ ایک انداز بیان ہے ، مقصد یہ ہے کہ کہا اور چیز بن گئی ، وہاں کوئی مختلف یا انتظار نہیں ہوتا ، یہ مراد نہیں کہ واقعی اسے تخلیق کے لئے کن کہنا پڑتا ہے یا کن کوئی طلسم ہے جس کے ورد سے وہ دنیا پیدا کرتا ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ توریت میں بھی اسی اعلی قسم کے الفاظ آئے ہوں گے جس سے عیسائیوں کو ٹھوکر لگی ، انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ کلام کوئی الگ صفت ہے جس سے دنیا کو پیدا کیا گیا ، چنانچہ انجیل میں ہے کہ ابتدا میں کلام تھا اور پھر یہ لکھا ہے کہ کلام کے وسیلے سے ساری چیزیں پیدا ہوئیں ، حالانکہ اس احکم الحاکمین خدا کو بجز ایک ارادے کے اور کسی چیز کی کیا حاجت ہے ؟ یہ درست ہے کلام اس کی صفت ہے ، قدرت بھی اس کی صفت ہے یعنی وہ قادر ہے اور اپنے خاص بندوں پرکلام نازل کرنے والا بھی ، یہ نہیں کہ کلام یا قدرت کوئی الگ چیزیں ہیں اور وہ خدا ہیں ۔ بلکہ خدا نام ہی ہے اس ذات اقدس کا جس میں علم قدرت ارادہ ایسا صفات کمال بدرجہ غایت موجود ہوں ۔ حل لغات : وجہ اللہ : رخ اور منہ ، کنایہ ہے اللہ کے فضل وکرم سے ۔ بدیع : بلا مددواستعانت پیدا کرنے والا ۔