إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُم مِّن وَلَايَتِهِم مِّن شَيْءٍ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا ۚ وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
بے شک جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے ہجرت (62) کی اور اپنے مال و دولت اور جانوں کے ذریعہ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے انہیں پناہ دیا اور ان کی مدد کی وہی لوگ ایک دوسرے کے یار و مددگار ہیں، اور جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے ہجرت نہیں کی، ایسے لوگوں سے تمہاری کوئی دوستی نہیں ہونی چاہئے یہاں تک کہ وہ ہجرت کرجائیں اور اگر وہ تم سے دین کے کام میں مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد کرنی واجب ہے، سوائے کسی ایسی قوم کے خلاف جن کے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ ہو، اور اللہ تمہارے کارناموں کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے
حفظ عہد (ف ١) مقصد یہ ہے کہ انصار اور مہاجرین باہم بھائی بھائی ہیں ، ان میں باہمی اعانت کا ہر طریق جاری رہنا چاہئے ، مگر وہ لوگ جو مومن تو ہیں ، اور ہجرت سے محروم رہے ، انہیں مہاجرین وانصار کی حمایت وولایت کا قطعی استحقاق نہیں ، جب تک کہ وہ اللہ کے لئے ہجرت اختیار نہ کریں ، البتہ دینی امانتیں بہرحال قائم رہیں گی ، مخالفین اگر ان مسلمانوں کو کمزور سمجھ کر ستائیں یا تکلیف دیں ، تو اس صورت میں ہر مسلمان اخلاقی ودینی طریقی سے اپنے بھائیوں کی اعانت کرے گا ، ہاں اگر مسلمان ان لوگوں سے تعرض کریں ، جن سے مہاجرین وانصار عہد ومیثاق کرچکے ہیں تو اس وقت حفظ عہد کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمانوں کی مدد نہ کی جائے کیونکہ پاس میثاق بہرحال ضروری ہے اور جن سے عہد کیا گیا ہے ، نبھایا جائے ۔