وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جان لو کہ تمہیں جو کچھ بھی مال غنیمت (35) ہاتھ آئے گا، اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے اور (رسول کے) رشتہ داروں، اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہوگا، اگر تمہارا ایمان (36) اللہ اور اس نصرت و تائید پر ہے جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن اتارا تھا جب حق باطل سے جدا ہوگیا، جب دونوں فوجوں کی مڈ بھیڑ ہوگئی، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
خمس : (ف ١) اسلام میں جہاں اخلاق وعقائد کی تشریح ہے وہاں عسکری ضابطوں کی توضیح بھی ہے کیونکہ یہ جامع مذہب ہے جس میں تمام ضروریات انسانی سے بحث ہے ۔ خمس کے معنی پانچویں حصے کے ہیں ، قاعدہ یہ ہے کہ جب مسلمان میدان جنگ میں جائیں ، اور دشمنوں کا مال لے کر لوٹیں تو اس کے پانچ حصے کردیئے جائیں ، پانچواں حصہ بیت المال میں دیں ، وہ دینی وملی ضروریات پر صرف ہو ، اسیرو یہ کہ مساکین یا مسافر جو زاد راہ کے محتاج ہوں انہیں حسب ضرورت واحتیاج دیا جائے باقی چار حصے مجاہدین میں تقسیم کردیئے جائیں ، یہ واضح رہے کہ اسلام کے عہد اول میں باقاعدہ وفوج نہ تھی نہ ان کی تنخواہیں معزز تھیں ہر مسلمان سپاہی تھا ، اور ملت ودین کی حفاظت کے لئے لڑنا ان کا فرض تھا ، جب ضرورت ہوتی ، تمام گھروں سے نکل کھڑے ہوتے ، اور جہاد میں شریک ہوجاتے ، اس لئے شریعت نے باقاعدہ مال غنیمت کے حصے مقرر کردیئے ، اور ہر سپاہی کا اس میں حصہ ہے ، جس کے صاف صاف معنی یہ ہیں کہ سپاہی ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے ، اور جنگ میں وہ ذمہ دار انسان کی طرح شریک ہوتا ہے ۔