كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ
(جس طرح تقسیم غنائم کا معاملہ اللہ اور رسول کے حوالے کردینا ہی بہتر رہا، اگرچہ بعض مسلمانوں نے اس میں اختلاف کیا تھا) اسی طرح آپ کے رب نے آپ کو اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر آپ کے گھر سے نکالا (3) اگرچہ مسلمانوں کی ایک جماعت اسے بار گراں سمجھ رہی تھی
غزوہ بدر : (ف ١) ٢ ھ میں مسلمانوں کو ضرورت محسوس ہوئی کہ مکے والوں کی شرارتوں کا قطعی سدباب کردیا جائے یہ تقریبا ٣٠٠ میل کی دوری کے باوجود مسلمانوں کو چین سے نہیں رہنے دیتے تھے اکثر دھمکیاں دیتے ، کہ ہم یثرب پہنچ کر تمہیں مزہ چکھائین گے ربیع الاول ٢ ھ میں ایک شخص کو زبن جابر الفہری مدینہ پہنچا اور اونٹ لوٹ کرلے گیا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ کرلیا ، کہ مدینے سے باہر نکل کر فیصلہ کن جنگ ہوجائے ، تاکہ کفر کو آیندہ ایمان کے خلاف جرات نہ رہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین سے مشورہ کیا ، سب نے رضا مندی کا اظہار کیا یہ ایک جماعت ایسی تھی ، جسے باہر نکل کر کامیابی کا بھروسہ نہ تھا وہ کہتے تھے ہم اچھی طرح تیار نہیں ہیں ، پہلے سے علم ہوتا تو تیاری کرلیتے مگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ قطعی تھا اللہ تعالیٰ یہ چاہتے تھے کہ احقاق حق ہوجائے ، اور کفر کے سارے ارمان نکل جائیں ، ” احدی الطآئفتین “۔ سے غرض یہ ہے کہ ایک قافلہ ابو سفیان کا جا رہا تھا جس کے تعاقب میں مسلمان نکلے ، مگر کفار مکہ کا لشکر جرار مقابلے کے لئے آرہا تھا ، اللہ یہ چاہتے تھے کہ تمہاری مڈبھیڑ لشکر سے ہو ، تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ ایمان میں کتنی قوت ہے اور تم چاہتے تھے کہ قافلہ ہاتھ آجائے ، تاکہ آسمانی سے مال غنیمت کے حقدار بن جائیں ، اس لئے وہی ہوا جو خدا کا منشاء تھا ۔ حل لغات : یساقون : مصدر سوق ، ہنکانا ۔