أَمْ تُرِيدُونَ أَن تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ ۗ وَمَن يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے رسول اسے اسی طرح سوالات (١٦١) کرتے رہو، جیسے اس سے قبل موسیٰ (علیہ السلام) سے سوالات کیے جاتے رہے، اور جس نے ایمان کے بدلے کفر کو قبول کرلیا وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا
(ف ١) ابو مسلم کا خیال ہے کہ اس آیت کے مخاطب نئے نئے مسلمان ہیں ، وہ کہتے تھے ، ہمیں بھی عجم کی طرف بت پرستی کی اجازت دی جائے ، امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اس کے مخاطب مشرکین مکہ ہیں ۔ ان میں کا ایک معزز عبداللہ بن امیہ مخرومی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اس وقت تک ہم ایمان نہیں لانے کے جب تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں چشمے نہ بہا دیں ، یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے باغات کی سرسبزی وشادابی ہو ‘ یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قصر ومحل سونے کا ہو ‘ اور یا پھر آپ آسمان پر چڑھ کر قرآن حکیم نہ اتار لائیں ، سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد یہودی ہیں ، اس لئے کہ اس کے آگے پیچھے انہیں کا ذکر ہے ، اور اس لئے بھی کہ یہ سورۃ مدنی ہے ، یوں جواب میں عموم ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے از خود بلا ضرورت کچھ نہ پوچھو وہ اللہ کی طرف سے مامور ہے ، بجز اس کی اجازت کے اسے بولنے کی اجازت نہیں ۔ یہودیوں میں یہ بری عادت تھی کہ وہ انبیاء علیہم السلام کو عموما سوالات کا تختہ مشق بنائے رکھتے اور عمل کم کرتے تھے ، موشگافیاں اور تفاصیل طلبی کا شوق حد سے زیادہ تھا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، رشد وہدایت کے آجانے کے بعد یہ کج بحثیاں کیوں اختیار کرتے ہو ؟ یاد رکھو کہ جس قوم میں یہ ذہنیت پیدا ہوجائے اس سے عملی قوت چھین لی جاتی ہے اور وہ راہ راست سے بھٹک جاتی ہے ۔ حل لغات : ملک : بادشاہت ، سلطنت : ولی : دوست ۔ نصیر : مددگار ۔ سوآء السبیل : راہ راست ۔ یردون : مادہ رد لوٹاتا ، کفارا جمع کافر ۔