وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ ۚ قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۖ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ
اور (اے میرے رب !) تو ہمارے لئے اس دنیا میں بھی بھلائی لکھ دے، اور آخرت میں بھی ہم نے تیری طرف رجوع کرلیا، اللہ نے کہا، میں اپنے عذاب (88) میں جسے چاہتا ہوں مبتلا کرتا ہوں، اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے، پس میں اسے ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو تقوی (89) کی راہ اختیار کرتے ہیں اور زکاۃ دیتے ہیں اور ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں
رحمت خداوندی کی وسعتیں : (ف1) ﴿إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ﴾سے غرض یہ ہے کہ ہر بات میں اللہ کی ہدایت اور کرم فرمائی ضروری ہے ، ورنہ گمراہی کا احتمال ہے ۔ ﴿وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ﴾کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کا غضب اس کے جذبہ رحم سے بسا اوقات مغلوب ہوجاتا ہے ، اور دب جاتا ہے ، مگر شرط یہ ہے کہ ایمان واتقاء کا مظاہرہ کیا جائے وہ لوگ جو صحیح معنوں میں مومن ہیں ، جن کے دلوں میں اتقاء وخشیت کی روشنی ہے ، جو باقاعدہ زکوۃ ادا کرتے ہیں ، اور مال ودولت کی محبت انہیں آپے سے باہر نہیں کردیتی وہ جو پاکباز اور پرہیزگار ہیں ، اعمال صالحہ جن کا وطیرہ اور شغل ہے ایمان جن کے دلوں میں اعتقاد محکم کی شکل میں موجود ہے وہ خدا کی رحمت کے سزاوار ہیں ان پر ہمیشہ اللہ کی رحمتیں چھائی رہتی ہیں ، دنیا ودین میں وہ کبھی نہیں بھٹکتے ، روح اور جسم کی تمام مستریں انہیں حاصل ہیں ، اور وہ خوش ہیں کہ اللہ کو انہوں نے پالیا ، اور اللہ سے ان کی دوستی ہے ۔