وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِن بَعْدِي ۖ أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ ۖ وَأَلْقَى الْأَلْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ ۚ قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُوا يَقْتُلُونَنِي فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْأَعْدَاءَ وَلَا تَجْعَلْنِي مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
اور جب موسیٰ اپنی قوم کی طرف غصہ کی حالت میں افسوس کرتے ہوئے واپس ہوئے، تو کہا کہ تم لوگوں نے میرے جانے کے بعد میری بڑی بری نیابت (82) کی ہے، اپنے رب کا حکم (تورات) آنے سے پہلے تم یہ حرکت کر بیٹھے، اور انہوں نے تختیوں کو ایک طرف ڈال دیا، اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے، ان کے بھائی نے کہا، اے میرے بھائی لوگوں نے مجھے کمزور سمجھ لیا تھا، اور قریب تھا کہ مجھے قتل کردیتے، پس دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کو موقع نہ دو اور مجھے ظالموں میں سے نہ بناؤ
پیغمبر کا غصہ : (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) جب تورات لے کر قوم میں واپس آئے تو دیکھا سب میں بت پرستی کے جراثیم پھیل چکے ہیں اور گوسالہ پرستی کا عمل جاری ہے آپ نے نہایت غصے کا اظہار کیا ، ہارون (علیہ السلام) کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور کہا یہ کیا معاملہ ہے ۔ بات یہ ہے انبیاء علیہم السلام میں صبر واستقلال کی استعداد عام لوگوں سے بہت زیادہ موجود ہوتی ہے مگر بےدینی والحاد ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتا ، ذاتی طور پر وہ ناراض نہیں ہوتے ، ان کی انفرادیت ختم ہوجاتی ہے ، ان کا غصہ اور مسرت محض اللہ کے لئے ہے ، غور کرو ، اس سے زیادہ اور کون سی بات صدمہ کی ہوسکتی ہے ، کہ روحانی اولاد بگڑ جائے ، جن کے لئے اتنی مصیبتیں برداشت کیں ، وطن چھوڑا وطن کی آسائشیں چھوڑیں آرام چھوڑا جنگل میں سکونت اختیار کی اور اب یہ لوگ گمراہ ہوجائیں ، موسیٰ (علیہ السلام) غصہ میں آگئے اور حضرت ہارون (علیہ السلام) نے جب جوابا فرمایا کہ میں معذور تھا ، مجھے انہوں نے کوئی اہمیت نہیں دی آپ دشمنوں کو خوش ہونے کا موقعہ نہ دیں ، تو فورا موسیٰ (علیہ السلام) کی سمجھ میں آگیا ، آپ نے اپنے اس غصہ کی اللہ سے معافی چاہی ۔ یہ یاد رہے کہ انبیاء علیہم السلام سے اس نوع کی جسارتیں ایک بلند نصب العین کے حصول کے لئے ہوتی ہیں ، تاکہ وہ قوم کے لئے ہر حالت میں نمونہ اور اسوہ ثابت ہو سکیں ، موسیٰ (علیہ السلام) کے غضب کو غصے میں بھی کردار وعمل کا اعلی سبق ہے ، یعنی وہ موسیٰ (علیہ السلام) جو فرعون کے مقابلہ میں نرم ہیں ، مصائب ومشکلات کو بخندہ پیشانی پرداشت کرتے ہیں قوم کی گمراہی سے طیش میں آجاتے ہیں ، اور پھر جب بھائی کی عذر خواہی سے تسلی ہوجاتی ہے فورا جناب باری میں التجاء عفو کے طالب ہوجاتے ہیں ۔ حل لغات : فلا تشمت : مصدر شمانۃ ، دشمن کی خوبی پر خوش ہونا ۔