وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ۚ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ
اور قوم فرعون کے سرداروں نے اس سے کہا (65) کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو یونہی آزاد چھوڑ دیں گے، تاکہ زمین میں فساد پھیلائیں، اور آپ کو اور آپ کے معبودوں کو نظر انداز کردیں؟ فرعون نے کہا کہ ہم ان کے بیٹوں کو تہ تیغ کریں گے، اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دیں گے، اور ہم یقینا ہر طرح ان پر قدرت رکھتے ہیں
(ف ١) یہ قاعدہ ہے جب کسی قوم میں بیداری پیدا ہو ، تو حکمران طبقہ اسے بہر نوع دبا دینا چاہتا ہے ، اور اس سلسلے میں بڑے سے بڑا ظلم میں روا رکھا جاتا ہے ، فرعون نے جب یہ دیکھا کہ بنی اسرائیل میں کچھ خود دارو متاع ایمان کو عزیز رکھنے والے لوگ پیدا ہوگئے ہیں ، تو کہا میں المناک سزائیں دوں گا اور قہر وتسلط کا پورا پورا مظاہرہ ہوگا ۔