قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۚ قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ
اس کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا، اے شعیب ! ہم تمہیں اور تمہارے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی بستی سے ضرور نکال (51) دیں گے، یا یہ کہ تم لوگ ہمارے دین میں لوٹ آؤ، شعیب نے کہا کیا ہم ایسا کریں، چاہے اسے برا جانتے ہو
آخری فیصلہ : (ف ١) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی نصیحتوں کو ٹھکرا دیا گیا ، اور صاف صاف کہہ دیا گیا ، اگر آپ ہماری خیانتوں اور بددیانتیوں کی تائید نہیں کریں گے تو ہم اپنی بستی سے تمہیں نکال باہر کریں گے گویا برائیوں سے روکنا برائی ہے ، اور ایسا گناہ ہے جو ناقابل عفو اور شائستہ تعزیر ہے ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا یہ ہرگز نہیں ہونے کا کہ ہم تمہارے مسلک کو قبول کرلیں ، اور دعوت حق سے روگردانی کرلیں ، اس کا مطلب یہ ہے ، کہ ہم نے معاذ اللہ ، اللہ پر افتراء کیا ہے ، کیا تم سمجھتے ہو ، ہم پھر اس گمراہی میں آپھنسیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ نے کمال عنایت سے ہمیں نجات دی ہے ، غرض یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا جو قدم حق کی تائید کے لئے اٹھتا ہے ، وہ پھر واپس نہیں ہوتا ، اور وہ پورے استقلال کے ساتھ قوم کی سرکشی اور عداوت کا مقابلہ کرتے ہیں ، وطن وقوم کی محبت ان کے پاؤں میں لغزش نہیں پیدا کرسکتی وہ اللہ کی جانب سے ایک فوق الادراک قوت لے کر دنای میں معبوث ہوتے ہیں ، کوئی دھمکی اور کوئی ترغیب ان کو جادہ مستقیم سے نہیں ہٹا سکتی ، یہ مخالفین کی بھول تھی ، کہ وہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کو اخراج کی دھمکی دے رہے تھے ، آخر میں حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ قوم کی جانب سے سختیاں بڑھ رہی ہیں اور ان میں قبول حق کی ذرہ برابر استعداد نہیں ، تو اللہ سے فیصلہ چاہا ، اور درخواست کی کہ اے اللہ ہم میں اور مخالفین میں ایک سچا فیصلہ فرما تو بہترین حاکم ہے ۔ دعا کے بعد فیصلے کی ساعت آپہنچی کیونکہ انبیاء اس وقت یہ بد دعا کرتے ہیں ، جبکہ قوم میں انتہائی شقاوت قلبی پیدا ہوجائے اور جب کہ اس کا مٹ جانا ہی انسب ہو اللہ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی سن لی ، اور زمین کانپ اٹھی ، زلزلہ آیا ، اور چشم زدن میں شعیب (علیہ السلام) کی قوم برباد ہوگئی ، جیسے صفحہ ہستی پردہ کبھی موجود ہی نہ تھی ،