وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ ۖ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ ۖ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ۖ وَنُودُوا أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور ہم ان کے سینوں سے ہر قسم کا کینہ (30) نکال دیں گے، ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اور وہ کہیں گے کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں س راہ پر ڈالا، اگر اللہ ہماری رہنمائی نہ کرتا تو ہم ہدایت نہیں پاسکتے تھے، یقینا ہمارے رب کے انبیاء حق بات لے کر آئے تھے، اور انہیں پکار (31) کر بتا دیا جائے گا کہ تمہیں تمہارے اعمال کی وجہ سے اس جنت کا وارث بنا دیا گیا ہے
(ف ١) غل کے معنی باہمی عداوت ودشمنی رکھنے کے ہیں ، مقصد یہ ہے کہ جنت کی زندگی میں دلوں میں غبار نہیں رہے گا دل صاف ہوں گے اور ہر شخص سچی اور معصوم زندگی بسر کرے گا ۔ (آیت) ” نزعنا ما فی صدورھم “۔ سے غرض یہ ہے ، کہ دنیا میں بھی دل آپس میں صاف رہنے چاہئیں اگر یہاں کدورت سے عداوت وبغض کی آگ سینے میں بھڑک رہی ہے ، تو پھر ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ خدا کے قرب کی استعداد ہم میں موجود نہیں ۔