سورة البقرة - آیت 2

ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اس کتاب(2) میں کوئی شک و شبہ (3)نہیں، اللہ سے ڈرنے(4) والوں کی رہنمائی(5) کرتی ہے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) سورۃ سجدہ میں فرمایا ﴿تَنْزِيلُ الْكِتابِ لا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعالَمِينَ یعنی اس صحیفہ ہدی کے الہامی ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ طرز بیان کی دلربائی ، دلائل کا احصاء ،ضروریات انسانی کا لحاظ اور فطرت حقہ سے تطابق یہ سب چیزیں پڑھنے اور سننے والے کے دماغ کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہیں پھر یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ یہ کلام خدا کا غیر مشکوک کلام ہے ۔ (ف2) ہدایت کے چار مرتبے ہیں ، الہام فطرت یا معارف ضروریہ کا علم جیسے ﴿رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى ﴾ ۔ یا وحی نبوت جیسے ﴿وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا ﴾ ۔ یا توفیق و تیسیر جیسے ﴿وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ ۔ اور یا اللہ کے انعامات کی طرف راہنمائی جیسے اہل فردوس یہ کہیں گے ۔ ﴿الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدٰانَا لِہٰذَا ۔ یہاں یہ آخری معنی مراد ہیں ، مطلقا راہنمائی مقصود نہیں ، وہ تو ہر شخص کے لئے ہے چاہے مانے چاہے نہ مانے ۔ حل لغات : تقوی ۔ وقایۃ سے مشتق ہے جس کے معنی بچاؤ کے ہیں ۔ مراد ایسی حالت ہے نفس کی جو گناہوں اور لغزشوں سے بچائے ، غیب : ہر وہ جو ہمارے جوارح کی دسترس سے بالا ہو ۔ اقامت الصلوۃ ۔ پوری طرح خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا ۔