إِنَّ اللَّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَىٰ ۖ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ
بے شک اللہ ہی دانہ اور گٹھلی کو پھاڑنے (91) والا ہے، زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے، اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا ہے، وہی اللہ ہے، پھر تم کدھر جا رہے ہو
(95۔117) پس اے مشرکو ! اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ میں ساجھی سمجھنے والو ! سنو ! اور غور سے سنو ! اللہ تعالیٰ کی سی صفات کاملہ جس میں نہ ہوں ہرگز اس سے نفع نقصان کا خیال مت کرو۔ منجملہ صفات اللہ کریم کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ دانے اور گٹھلی کو پھاڑتا ہے وہی جاندار کو بے جان سے اور بے جان کو جاندار سے نکالتا ہے منی اور انڈے سے زندے حیوانات پیدا کردیتا ہے اور زندوں سے مرے ہوئوں کو الگ کرتا ہے۔ یہی اللہ سچا معبود ہے پھر تم کدھر کو بہکے چلے جاتے ہو کہ اس حقیقی مالک کو چھوڑ کر اس کے بندوں سے استمداد کرتے ہو۔ اڑے وقتوں میں غیروں کو پکارتے ہو سنو ! صبح کو بھی وہی روشن کرتا ہے اس نے رات کو آرام کے لئے اور سورج اور چاند کو علاوہ اور فوائد کے حساب کے لیے پدحا کیا ہے۔ مجال نہیں کہ اپنے موسم کے لحاظ سے ایک منٹ بھی آگے پیچھے ہوجائیں۔ بھلا کیونکر ہو‘ یہ بھی کوئی میل ٹرین ہے جو باوجود تار برقی وغیرہ انتظامات کے عموماً لیٹ ہو کر پہنچتی ہے جس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اوقات مقرر کرنے والوں کو آئندہ کی مشکلات کا پورا علم نہیں ہوتا۔ کہہ فلاں وقت کیا حادثہ پیش آئے گا۔ نہ ہی جب کوئی حادثہ پیش آوے تو اس کو رفع دفع کرنے کی ان میں طاقت ہوتی ہے پس نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے اوقات مقررہ میں فتور آجاتا ہے یہ چاند سورج کا اندازہ اور تعیین اوقات تو بڑے غالب بڑے ہی علم والے کا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں تقدیم و تاخیر مطلقاً نہیں ہوتی اسی پر اس کی قدرت بس نہیں اور سنو ! اسی نے تمہارے لئے ستارے بنائے ہیں کہ تم ان کے ساتھ جنگلوں اور دریائوں کے اندھیروں میں راہ پائو علمداروں اور سمجھداروں کے لئے ہم نے اپنی قدرت کے نشان بتلا دئیے ہیں تمہیں بھی عقل اور علم ہے تو نتیجہ پائو۔ اور سنو ! ادھر ادھر کیوں جائو اپنے نفس ہی میں غور کرو۔ اسی نے تم سب کو ایک جان آدم سے پیدا کیا ہے۔ پھر تمہارے میں سے بعض کے لئے دنیا کو قرارگاہ اور بعض کو عارضی ٹھیرائو ہے یعنی کوئی تو ایک مدت دراز تک اس میں رہتا ہے اور کوئی چند روز بلکہ بعض چند لمحے ہی ٹھیر کر چل دیتے ہیں جو لوگ سمجھتے ہیں ان کے لئے ہم نے کھلے کھلے نشان بتلا دئیے ہیں اور سنو ! ہم (اللہ) ہی تمہارے لیے اوپر سے پانی اتارتے ہیں پھر اس پانی کے ساتھ ہر قسم کی انگوریاں نکالتے ہیں پھر ان میں سے سبزہ باہر لاتے ہیں اور اس سبزہ میں سے گتھے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور ہماری ہی قدرت اور اجازت سے کھجوروں کے گابھے میں سے جھکے ہوئے گچھے نکلتے ہیں اور انگوروں اور زیتون اور اناروں کے باغ پیدا کرتے ہیں جن کے پھل کوئی تو آپس میں مشابہ ہوں اور کوئی غیر مشابہ مثلاً آم ہیں کہ ایک قسم کے دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور دوسری قسم کے نہیں۔ ذرا غور سے ان چیزوں کے پھلوں کی طرف دیکھوجب نکلتے ہیں اور پکتے ہیں کیا ہی ان سے قدرت صانع نمودار ہوتی ہے بیشک راستی کے ماننے والوں کے لیے اس میں بڑے نشان ہیں یعنی جن کو راستی سے محبت ہے اور راستی کے ماننے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں وہ اس میں غور کریں تو ان کو اپنے خیالات کی تصحیح ہوسکتی ہے اور یہ تیری قوم کے لوگ تو ایسے ہیں کہ بجائے ہدایت اور راستی اختیار کرنے کے ہر بات میں الٹے چلتے ہیں سب سے مقدم بات اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے یہ اس میں بھی کج رو ہیں دیکھو تو کیا ہی حماقت ہے کہ جِنّوں کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کا ساجھی بنا رکھا ہے ہزار دفعہ سن چکے ہیں کہ جو کام اللہ تعالیٰ نے اپنے قبضے میں کر رکھے ہیں ان میں کسی غیر سے استمداد کرنا شرک ہے مگر یہ ایسے نادان ہیں کہ جب کسی جنگل میں ڈیرہ لگاتے ہیں تو پہلے نعوذ بسید ھذا الوادی کہہ لیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے۔ وہ خود اس کے محتاج ہیں تو پھر یہ اتنا بھی نہیں جانتے جو خود محتاج ہووے دوسرے کا بھلا اس سے مدد کا مانگنا کیا (یعنی ہم اس جنگل کے سردار کی پناہ میں آتے ہیں۔ سردار سے مراد جن ہے۔ ) اور سنو ! کہاں تک ان کی نالائقی کا اظہار کیا جاوے محض جہالت سے اس اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور بیٹیاں اپنی طرف سے گھڑ رہے ہیں فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں اور اللہ کے صلحا بندوں کو اس کے بیٹے بناتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ ان کی اس بیہودہ گوئی سے پاک اور بلند ہے وہ تو سب آسمانوں اور زمینوں کا موجد ہے یہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ اس کی اولاد کہاں سے ہو جب کہ اس کی بیوی ہی نہیں۔ اس نے سب کو پیدا کیا۔ پھر اس کا بیٹا یا بیٹی کون ہوسکتا ہے؟ کیا حادث قدیم کے ہم جنس ہوسکتا ہے اس کا علم بھی اس قدر وسیع ہے کہ وہ ہر ایک چیز کو خواہ کہیں بھی ہو‘ جانتا ہے دنیا میں کون ہے جو اس وسیع علم کا مدعی ہو۔ جب دونوں صفتیں (خلق اور علم) سوائے اس کے کسی میں نہیں تو یقین جانو کہ یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں یہی ہر ایک چیز کا پیدا کرنے والا ہے پس تم اسی کی عبادت کرو وہ ہر ایک چیز پر قادر اور سب کا متولی ہے مجال نہیں کوئی چیز اس کے حکم سے سرتاب اور خارج ہوسکے اس کو کوئی آنکھ نہیں دیکھ سکتی وہ سب آنکھوں اور آنکھوں والوں کو دیکھتا ہے اور وہ بڑا باریک بین باخبر ہے۔ وہ کسی آنکھ کان کا محتاج نہیں اس کی ذات ہی مجمع اوصاف حمیدہ ہے پس تو ان سے کہہ لوگو ! تمہارے پروردگار کی روشنی اور ہدایت یعنی قرآن جس میں سچے اور صحیح عقائد مذکور ہیں تمہارے پاس آچکے ہیں پس جو روشنی لے گا اسی کا بھلا ہے جو دانستہ اندھا بنے گا اسی پر وبال ہوگا۔ نہ کسی کی نیکی سے کسی کو فائدہ نہ کسی کی برائی سے کسی کا نقصان اور میں تم پر محافظ تو ہوں نہیں کہ تمہاری کج روی کا سوال مجھ سے ہو۔ اسی طرح ہم (اللہ) اپنے احکام بتلاتے رہیں گے جس پر انجام یہ ہوگا کہ سمجھنے والے سمجھیں گے اور کہنے والے تجھ سے یہی کہیں گے کہ تو کہیں سے پڑھ آیا ہے جو ایسی باتیں کرتا ہے ورنہ تو بھی تو ہمارے میں سے تھا تجھ میں کون سی زیادتی ہے جو تو ایسی باتیں نئی نئی کہتا ہے اور علم والوں کے لئے ہم واضح کر کے بتلا دیں گے وہ ان کے ایسے کہنے سے قرآن کی صداقت سمجھ لیں گے۔ پس جو تیرے پروردگار کے ہاں سے تجھے ملا ہے تو اس کی پیروی کر کیونکہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پس تو اسی کا ہو رہ اور اس کے ساجھی بتلانے والوں سے کنارہ کر اور یہ بھی سن رکھ کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ کبھی بھی شرک نہ کرتے کیا اس کے قہری حکم کو بھی کوئی مانع ہوسکتا ہے؟ ایک دم میں سب کافروں کو اسلام میں لا سکتا ہے۔ لیکن وہ ایسے اختیاری کاموں میں جبر نہیں کیا کرتا پس تو صبر کر اس لئے کہ تجھے ان کے کاموں سے سوال نہیں ہوگا کیونکہ ہم نے تجھے ان پر محافظ نہیں بنایا کہ خواہ مخواہ ان کی نگرانی تیرے ذمہ ہو اور نہ تو ان پر تعینات ہے۔ کہ افسروں کی طرح ماتحتوں کی نالائقی پر تجھے عتاب ہو۔ یہ تعلیم تو اپنے تابعداروں کو بھی سنا دے اور بتلا دے کہ تم اپنا کام کئے جائو اور غصہ میں آ کر جنہیں اللہ کے سوا پکارتے ہیں یعنی ان کے مصنوعی معبود ان کو کہیں گالیاں نہ دینے لگو نہیں تو بے سمجھی سے ضد میں آ کر تمہارے جلانے کو سچے معبود جس کا نام اللہ ہے اس کو گالیاں دینے لگیں ! گے کیونکہ ہر ایک کو اپنے ہی عمل بھلے معلوم ! ہوں پس تاوقتیکہ وہ اپنی غلطی سے باقاعدہ مطلع نہ ہوں کیونکر ان کو چھوڑیں پھر گالیاں دینے سے بجز بداخلاقی کے کیا نتیجہ؟ آخر اپنے پروردگار کی طرف ان کو لوٹنا ہوگا پس وہ ان کے کاموں سے ان کو اطلاع دے گا گالیاں تو یوں بھی ایک قبیح اور مذموم طریق ہے خاص کر ایسے لوگوں کو جو اعلیٰ درجہ کے ضدی ہونے کے علاوہ دروغ گو بھی ہوں ناحق ایک بدزبانی کا موقع دینا ہے (شان نزول (وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ) بعض دل جلے مسلمان جوش میں آ کر مشرکوں کے معبودوں کو برا بھلا کہہ دیا کرتے تھے۔ ان کے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ راقم کہتا ہے یہ ایک نہایت پاکیزہ اصول ہے کہ مناظرہ میں فریق ثانی کے بزرگوں کو انہی لفظوں سے یاد کرنا چاہئے جن لفظوں سے ہم اپنے بزرگوں کا نام سننا چاہیں افسوس ہے کہ زمانہ حال میں اس طریق کی گفتگو بہت ہی کم ہوتی ہے جس کا نتیجہ بھی ظاہر ہے۔) (افسوس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے بایں ہمہ دعویٰ مسیحیت و مہدویت و مجددیت اور کیا نہیں کیا حضرت مسیح (علیہ السلام) کو بے نقط سنائیں اور عذر یہ کیا کہ میں یسوع کو جو عیسائیوں کا مصنوعی معبود ہے گالیاں دیتا ہوں مسیح کو نہیں۔ عذر گناہ بدتر از گناہ۔ شاید مرزا صاحب نے اس آیت کے جدید معنے سوچے ہوں کیوں نہ ہو مجدد بھی تو ہیں۔ ) اس آیت میں متکلم کا ترجمہ ہم نے نہیں کیا کیونکہ اس قسم کے تکلم اللہ تعالیٰ کی نسبت عموماً علت العلل کے قسم سے ہیں۔ فافہم) دیکھو تو ہر بار مضبوط مضبوط حلف اٹھا چکے ہیں کہ اگر ہمارے پاس کوئی نشان آوے یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی معجزہ دکھا دے تو ہم ضرور مان لیں گے اور اس پر ایمان لے آویں گے (وَاَقْسَمُوْا باللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ) مشرکین تو کوئی نہ کوئی پہلو ہمیشہ اس بات کا سوچا کرتے تھے کہ جس طرح ہوسکے ہمارا غلبہ رہے بعض دفعہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ درخواست کرتے کہ اگر آپ حضرت موسیٰ کی طرح عصا وغیرہ کا معجزہ دکھائیں تو ہم آپ کو مان لیں گے لیکن کاش کہ دلی اخلاص سے کہتے بلکہ اس میں یہ سوچتے تھے کہ سردست تو ایک عذر ملے بعد ظہور معجزہ کوئی اور عذر تراشیں گے ایسوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی (معالم بتفصیل منہ) مگر پھر کئی معجزات دیکھ کر بھی ویسے ہی اڑے ہوئے ہیں اور ہمیشہ ایک دیکھ کر نئی فرمائش کردیتے ہیں اس لئے تو ان کے قطعی فیصلہ کو ان سے کہہ دے کہ نشانات سب اللہ کے پاس ہیں تم مسلمانوں کو بھی تو ان کا حال معلوم نہیں کہ ان کے دلوں میں کیا کیا خیالات واہیہ اور گمان فاسدہ بھرے ہوئے ہیں چونکہ ان کے دلوں سے ہم (اللہ) ہی واقف ہیں اس لئے ہم جانتے ہیں کہ وہ کسی قسم کے معجزے کے آنے پر بھی ایمان نہ لاویں گے اور ہم ان کے دلوں کو اور آنکھوں کو حق بینی سے پھیر دیں گے کیونکہ پہلی دفعہ اس نشان پر ایمان نہیں لائے اور محض ضد سے انکاری ہوئے اور مسخری میں واہی تباہی سحر اور جادو کہتے رہے اور ہم ان کو انہیں کی سرکشی میں چھوڑ رکھیں گے۔ کیونکہ ہمارے ہاں عام قاعدہ ہے کہ جو کوئی ہم سے مستغنی اور بے پرواہ بنتا ہے ہم بھی اس کو اسی کی طرف سونپ دیتے ہیں ان کے استغناء اور سرکشی کی نوبت تو یہاں تک پہنچی ہے کہ اگر جیسا کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ فرشتے رسول ہو کر کیوں نہیں آتے۔ آسمان سے ہم فرشتوں کو ان کے سامنے اتارتے اور وہ آ کر بزبان خود ان کو تعلیم دیتے اور مردے بھی ان سے باتیں کرتے اور سب غائب چیزوں کو جو آئندہ کو ہونے والی ہیں لا کر ان کے سامنے کھڑا کردیتے گویا قیامت ابھی ان کے سامنے قائم ہوجاتی تو بھی یہ کسی صورت پختہ ایمان نہ لاتے ہاں اللہ تعالیٰ چاہتا تو یک دم سیدھا کردیتا مگر اللہ تعالیٰ کسی پر اختیاری کاموں میں جبر نہیں کیا کرتا لیکن بہت سے لوگ ان میں سے جہالت اور نادانی کرتے ہیں جو سمجھ رہے ہیں کہ اگر ہمارا دین اور طریق اللہ تعالیٰ کو پسند نہ ہوتا تو ہم کو اس میں پیدا ہی کیوں کرتا یا کفر شرک اللہ تعالیٰ کو پسند نہ ہو تو کفر کرنے والوں کو کیوں یک دم تباہ اور ہلاک نہیں کردیتا۔ تُو مخالفوں کی مخالفت سے گھبرا نہیں اسی طرح قدیم سے چلی آئی ہے ہم نے شریر انسانوں اور جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے۔ ان کی طبائع ہی اس مخالفت کی مقتضی ہیں۔ ایک شریر دوسرے کو دھوکہ بازی سے بے ہودہ اور لغو باتیں پھونکتے رہتے ہیں کوئی کسی بت کی طرف بخیال طمع جھکاتا ہے کوئی کسی قبر اور قبر والے سے التجا کرواتا ہے اور جی میں خیال ڈال دیتا ہے کہ یہاں سے فلاں آدمی کو مراد ملی تھی جو کوئی یہاں باخلاص قلبی نذر چڑھاتا ہے وہ ضرور مراد پاتا ہے۔ اور اگر تیرا پروردگار چاہتا‘ کہ ایسا نہ کریں تو یہ لوگ ایسا نہ کرتے۔ بلکہ مجبور کر کے ان سے چھڑا دیتا پس تو ان کی پرواہ نہ کر اور ان کا اور ان کی افترا پردازیوں کا مطلق خیال نہ کر۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو۔ اس پاجیانہ حرکت سے ان کو کئی ایک غرضیں ملحوظ ہیں ایک تو اپنے واہیات خیالات لوگوں میں پھیلانے اور بڑی بھاری غرض یہ کہ کسی طرح قیامت کی جزا سزا پر ایمان نہ لانے والوں یعنی بے ایمانوں کے دل ان کی طرف جھکیں اور وہ اس طریق کو پسند کریں اور بتوں کے پجاری اور قبروں کے مجاور جو کمانا چاہیں کمائیں۔ ساری بات کا خلاصہ تو یہ ہے کہ ” ایں ہمہ ازیئے آنست کہ زرمیخواھد“ تجھے بھی اگر ایسی بات سنا کر کسی آدمی کے فیصلے کی طرف بلائیں تو (تو کہہ دیجیو) کیا میں اللہ کے سوا اور کسی کو منصف بنائوں؟ اسی ذات پاک نے تو تمہاری طرف مفصل کتاب قرآن اتاری ہے جس میں کوئی کسی طرح کا ایچ پیچ نہیں لیکن جن کے دلوں میں کجی ہے وہ سیدھی تعلیم کو نہیں مانتے۔ اور جن کو ہم نے کتاب اللہ کی سمجھ دی ہے وہ یقینی جانتے ہیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجھ پر اترا ہے حق اور واجب العمل ہے۔ پس تو ان بےدینوں کی ایسی ویسی باتوں سے ہرگز شک مت کیجیو اور سن رکھ تیرے رب کے فیصلے صدق اور عدل سے بھرپور ہیں ممکن نہیں کہ اس کے احکام اور مواعید میں کبھی خلاف ہو کیونکہ اس کی ذات کذب اور عجز سے پاک ہے کوئی دوسرا اس کے حکموں کو بدلنے والا نہیں وہی اللہ تعالیٰ سب کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔ مناسب موقع پر سب کچھ کر دے گا تو اسی کا ہو رہ اور اس خیال کو دل سے نکال دے کہ اکثر لوگ جس طرف بلائیں اس میں فائدہ ہوتا ہے سن رکھ اگر تو زمین کے باشندوں میں سے اکثر کے پیچھے ہؤا تو ضرور تجھ کو اللہ کی راہ سے بہکا دیں گے کیونکہ وہ تو صرف اپنے خیالات پر چلتے ہیں اور نری اٹکلیں ہی دوڑاتے ہیں (شان نزول (وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ) جہاں بھی بری بلا ہوتے ہیں مردار اور ذبیحہ کی نسبت گفتگو کرتے ہوئے مشرکین عرب کہا کرتے تھے ہ صاحب عجیب بات ہے کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کا مارا ہوا جانور نہیں کھاتے اور اپنا مارا ہوا کھا لیتے ہو۔ پھر اس دعویٰ کو اپنی کثرت سے مدلل بھی کیا کرتے کہ ہم چونکہ تعداد میں تم سے زیادہ ہیں اس لئے تم کو چاہئے کہ ہمارے مذہب کو اختیار کرو اس پر یہ آیت نازل ہوئی (معالم) راقم کہتا ہے اس آیت نے قطعی فیصلہ دیا ہے کہ کسی جماعت کی محض کثرت بغیر قوت دلیل کے ہرگز اس جماعت کی حقیقت کو مستلزم نہیں بلکہ صداقت اور حقانیت کے لئے قوت دلیل ضروری ہے۔ منہ) جو کچھ کریں تو اس سے بے فکر رہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ سے بھٹکتے ہیں تیرا پروردگار ان کو خوب جانتا ہے اور وہ سیدھی راہ پر چلنے والوں سے بھی خوب واقف ہے