سورة المآئدہ - آیت 87

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے ایمان والو ! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال بنائی ہیں انہیں حرام (109) نہ بناؤ، اور حد سے تجاوز نہ کرو، بے شک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(87۔110) اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سستی کرنا اور بے پروائی سے ٹلا دینا ہی بسا اوقات موجب کفر ہوتا ہے۔ جب ہی تو تم کو حکم ہوتا ہے کہ مسلمانو ! اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی اور مباح بتلائی ہوئی چیزوں کو حرام مت سمجھو۔ بلکہ ان کے استعمال میں اعتدال سے رہو اور کسی طرح کسی جانب سے حد سے نہ بڑھو اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ (شان نزول (لاَ تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ) چند صحابہ دنیا سے دل برداشتہ ہو کر عہد کرچکے کہ آئندہ کو لذیذ غذا نہ کھائیں گے اور عمدہ لباس نہ پہنیں گے چونکہ یہ ارادہ شریعت الٰہی کے خلاف تھا۔ کیونکہ شریعت کو تو منظور ہے کہ انسان اپنے دل کا لگائو اللہ تعالیٰ کے ساتھ رکھے کھانے پینے کو جو چاہے حلال طیب کھائے اس لئے ان کو اس ارادہ سے روکنے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی (معالم) جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تم کو حلال طیب رزق دیا ہے وہ کھائو اور ناشکری اور بے فرمانی کرنے میں جس اللہ پر تم ایمان اور یقین کامل رکھتے ہو اس سے ڈرتے رہو۔ حتی المقدور کسی طرح اس کی بے فرمانی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ بھی تم کو ناحق خواہے نخواہے تنگ کرنا نہیں چاہتا۔ دیکھو تو اس کی مہربانی تم پر کیسی ہے کہ وہ تمہاری لغو قسموں میں جو باتوں باتوں میں تم واللہ باللہ کہا کرتے ہو مواخذہ نہیں کرتا۔ شان نزول (لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ باللَّغْوِ) پہلی آیت جب اتری تو جن صاحبوں نے اپنے ارادوں پر قسمیں کھائی ہوئی تھیں۔ انہوں نے اپنی قسموں کی بابت آنحضرت سے سوال کئے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی (معالم) لیکن جن باتوں پر تم نے دل سے مضبوطی کر کے خلاف کیا ہو ان پر مواخذہ کرتا ہے پس اس کی مہربانی کو دیکھو کہ اس کا علاج بھی بتلا دیا کہ اس کے کفارہ میں دس مسکینوں کو متوسط درجے کا کھانا عموماً تم اپنے عیال کو کھلاتے ہو کھلائو یا اگر مقدرت رکھتے ہو تو بجائے کھانے کے ان کو لباس پہنائو۔ یا اگر اس سے زیادہ مقدور والے ہو تو ایک غلام آزاد کرو۔ اور جس کو یہ کچھ بھی میسر نہ ہو اور ان تینوں میں سے کسی امر کی طاقت اور وسعت نہ رکھتا ہو تو وہ تین روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے۔ جب تم قسم کھا کر خلاف کرو اور بہتری تو اسی میں ہے کہ جہاں تک ہوسکے اپنی قسموں کی خوب حفاظت کرو بشرطیکہ کسی ناجائز کام کی قسم نہ ہو۔ حتی المقدور پوری کیا کرو اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے احکام تم سے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم احسان مانو اور شکر گذار بنو۔ منجملہ ان احکام الٰہی کے ایک حکم اخلاقی یہ ہے کہ تم مسلمانو ! شراب اور جوا وغیرہ بداخلاقیوں کے نزدیک بھی نہ جائو۔ ( شان نزول (اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ) عرب میں کس قدر شراب اور جوئے کا رواج تھا اس کا اندازہ کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے حضرت عمر (رض) ہمیشہ سے اس کے مخالف تھے اس لئے ہمیشہ ہی اس کے حال سے مستفسر رہتے۔ آخر حکم ربانی اس کی بابت یہ پہنچا۔ منہ) مشرکین عرب میں جہاں اور بداخلاقیاں تھیں یہ بھی تھی کہ انہوں نے چند تیر اس قسم کے رکھے ہوئے تھے کہ ان کے ذریعہ فال ڈالتے تھے کسی پر (کر) اِفْعَلْ لکھا ہوتا اور کسی پر لاَ تَفْعَلْ (نہ کر) ہوتا۔ اگر اِفْعَلْ (کر) والا ہاتھ میں آتا تو اس کام کو کرلیتے۔ اگر لاتفعل (نہ کر) والا آتا یعنی اس کام کو نہ کر تو نہ کرتے اور سکوت والا ہوتا تو پھر ڈالتے۔ ان کو روکنے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) کیونکہ شراب خواری اور جوا بازی اور بت پرستی اور تیر یعنی تیروں سے تقسیم کار کرنا شیطانی کام ہیں پس تم ان سے بچتے رہیو۔ تاکہ تمہارا بھلا ہو۔ اور مہذب اخلاق بن جائو شیطان یہی جاہتا ہے کہ شراب خواری اور قمار بازی کی وجہ سے تم میں باہمی عداوت اور بغض ڈالے۔ اور یاد الٰہی اور نماز سے تم کو غافل اور بے خبر کر دے تو کیا اس دشمن کے فریب سے اطلاع پا کر بھی تم باز نہ آئو گے پس ان سب خرابیوں کی جڑ کو چھوڑ دو اور اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور بے فرمانی سے بچتے رہو۔ پھر اگر اس تاکیدی حکم کے سننے کے بعد بھی تم احکام شریعت سے منہ پھیرو گے تو جان رکھو کسی کا کچھ نہ کھوئو گے۔ ہمارے رسول کے ذمہ تو صرف تبلیغ احکام کا بوجھ ہے اور کچھ نہیں۔ تعمیل احکام کی بابت سوال تم سے ہے ہاں یہ بات بھی بیشک صحیح ہے کہ اطاعت کا حکم بھی ان ہی مسائل اور احکام میں ہے جن کی بابت حکم اترا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حرمت خمر سے پہلے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے اس حال میں وہ جو کچھ شراب کباب کھا پی چکے ان پر گناہ نہیں جب کہ انہوں نے حرام چیزوں سے پرہیز کیا اور ان کی حرمت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے پھر پرہیزگاری پر جمے رہے اور ایمان دار بنے رہے اور ہر وقت وہ تقویٰ شعار رہے اور احسان اور اچھے اچھے لوگوں سے سلوک اور نیک کام کرتے رہے ان کو کیوں گناہ ہونے لگا اللہ تعالیٰ تو محسنوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی اطاعت میں سرگرم رہتے ہیں انہیں بھی جانتا ہے اور جو ظاہری ڈیل ڈول دکھا کر دھوکہ بازی کرتے ہیں وہ بھی اس سے پوشیدہ نہیں مگر کبھی کبھی بندوں کے سامنے مخلصوں کا اظہار بھی اس کو منظور ہوتا ہے۔ چنانچہ مسلمانو ! تم کو بھی اسی غرض سے کہ دو رخے اور کمزور خیال کے لوگ تم سے جدا ہوجائیں اللہ تعالیٰ تم کو ایک ذرا سی بات یعنی شکار سے جس تک تمہارے ہاتھ اور نیزے پہنچتے ہوں گے یعنی وہ تم سے بہت ہی قریب ہوں گے ایام احرام اور حج میں منع کر کے آزماوے گا۔ تاکہ جو لوگ اس اللہ تعالیٰ سے نادیدہ ڈرتے ہیں ان کو الگ کر دے اور جو دوسروں کی دیکھا دیکھی یا کسی مطلب دنیاوی سے دعویٰ اسلام کرتے ہیں ان کی اصلیت ہی لوگوں پر واضح کر دے پس جو اس سے پیچھے زیادتی کرے گا اللہ تعالیٰ کی ممانعت سے بے پرواہ ہوگا اسی کو دکھ کی مار ہوگی۔ لو مسلمانو ! اب صریح حکم سن لو کہ احرام کی حالت میں شکار نہ کیا کرو۔ اور جو تم میں سے ایسا شکاری ہو کہ شکار دیکھ کر اس کی رال ٹپکتی جائے اور وہ جان بوجھ کر اس شکار کو مارے تو جو جانور اس نے مارا ہے اس جیسا کوئی چار پایا جس کی بابت دو انصاف والے تم میں سے فیصلہ کریں کعبے تک پہنچنے والی قربانی دیوے یا اگر اس جیسا جانور نہ ملے تو چند مسکینوں کو کھانا کفارہ میں دے یا اگر اس کو یہ بھی وسعت نہیں تو اسی قدر تین چار روزے رکھے۔ یہ حکم اس لئے ہے کہ اپنے کئے کی سزا کا مزہ چکھے جو اس سے پہلے گذرا سو اللہ تعالیٰ نے معاف کیا اور جو اس سے بعد ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے اسی قسم کی سزا دے کر بدلہ لے گا اور اللہ کی بے فرمانی سے بچتے رہو کیونکہ وہ بڑا زبردست بدلہ لینے والا ہے ۔ تمہیں اس اطاعت میں تکلیف ہی کیا ہے جب کہ دریائی جانوروں کا شکار کرنا اور کھانا تم کو احرام کی حالت میں بھی حلال ہے تاکہ تمہارا اور تمہارے قافلے والوں کا گذارہ ہو۔ اور جنگلی شکار ہرن وغیرہ جب تک تم محرم رہو تم کو حرام ہے پس اس کو نہ کھائیو اور بے فرمانی کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہئو جس کے پاس تم نے جمع ہونا ہے اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے چونکہ وہ جانتا تھا کہ اسلام اقطاح عالم میں پھیلے گا اور اہل اسلام بکثرت لا تعداد ہوں گے جس کے لئے کوئی جگہ بطور مرکز ثقل کے ضروری ہے اس لئے حسب مصلحت اس نے کعبہ کو جو بوجہ بنانے ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز عبادت خانہ ہے تمام دنیا کے مسلمان لوگوں کا ذریعہ ملاقات و اتحاد بنایا ہے اور حکم دیا ہے کہ جس کو وسعت ہو۔ وہ ایک دفعہ کعبہ میں ضرور پہنچ کر اسلامی دارالخلافہ دیکھے اور حرمت والے مہینوں کو جن میں لڑائی کرنی منع ہے اور قربانیوں اور پٹے اور سیلیوں کو بھی بغرض انتظام امن عامہ اہل عرب کے مقرر کیا ہے کہ وہ یوں تو ہمیشہ اور ہر چیز پر لوٹ گھسوٹ ڈالا کرتے ہیں مگر ماہ حرام میں اور قربانیوں کے جانوروں پٹے باندھے ہوئوں کو نہیں لوٹتے تھے یہ تمہیں اس لئے بتلایا ہے کہ تم جانو کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کی سب چیزیں جانتا ہے اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے اور باخبر ہے پس تم دل سے یقین رکھو اور خوب جانو کہ اللہ بے فرمانوں کے حق میں سخت عذاب والا ہے اور فرمانبرداروں کے لئے اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے اگر بے فرمانی کرو گے تو اپنا کچھ کھوئو گے اور کسی کا کچھ نہ بگاڑو گے رسول کے ذمہ تو صرف پہنچا دینا ہے کیا تم نے مشہور مقولہ نہیں سنا ” بررسولاں بلاغ باشد وبس“ تعمیل کا سوال تم سے ہوگا۔ اور تمہارے ظاہر باطن کے کام سب اللہ کو معلوم ہیں اکثر لوگ بےدینوں کی کثرت دیکھ کر بےدینی کرنے لگ جاتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے کیونکہ اکثر لوگ ایسا ہی کرتے ہیں تو ایسے لوگوں سے کہہ دے کہ خبیث یعنی بدخصلت اور نیک کردار مساوی نہیں گوتم کو خباثت اور بداخلاقی کی کثرت حیرانی میں ڈالے۔ پس تم عقلمندو ! ہر ایک چیز کو اس کے ذاتی اوصاف سے پرکھا کرو۔ اور بداخلاقی کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ تاکہ تمہارا بھلا ہو۔ مسلمانو ! ایسی چیزوں کا سوال نہ کیا کرو جن میں احتمال ہو کہ ظاہر ہونے پر تم کو تکلیف دہ ثابت ہوں۔ یعنی ان کی تعمیل سے تمہارے نفسوں پر سختی پہنچے گی اور اگر تم قرآن کے اترتے وقت یعنی پیغمبر (علیہ السلام) کی زندگی میں تم ان کا سوال کرو گے تو لامحالہ تم پر ظاہر کی جائیں گی کیونکہ پیغمبر تو اسی لئے آیا کرتے ہیں کہ بھولوں کو راہ پر لاویں پس کیا فائدہ کہ تم ناحق ایک حکم کی تعمیل کے نیچے آجائو‘ اگر ضرورت ہوگی تو اللہ تعالیٰ خود ہی بتلا دے گا اب تو اللہ تعالیٰ نے تم سے در گذر کیا اور معافی دی آئندہ کو ایسا نہ کرنا اللہ بڑا ہی بخشنہار بردباد ہے عذاب کرنے میں جلدی نہیں کیا کرتا اسی طرح تم سے پہلے بھی ایک قوم نے ایسے سوال کئے تھے پھر بعد ظاہر ہونے کے ان کی تعمیل سے انکاری ہوگئے پس جو کچھ اللہ تعالیٰ تم کو بتلاتا ہے وہ کئے جائو اور مشرکوں کی طرح اللہ تعالیٰ پر بہتان نہ باندھو (شان نزول اس آیت کے شان نزول میں چند روایات منقول ہوتی ہیں جن میں سے ایک یوں ہے کہ ایک لڑکے کی پیدائش کی نسبت بدگمانی کرتے تھے کہ یہ ناجائز مولود ہے۔ اس نے آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا میرا باپ کون ہے۔ آنحضرت نے وہی بتایا جو اس کی والدہ کا ناکح تھا بس فیصلہ ہوگیا۔ راوی کہتا ہے اس واقعہ کے بعد یہ آیت نازل ہوئی مگر دقیق نظر میں یہاں ایک اعتراض پیدا ہوتا ہے وہ یوں ہے کہ آیت کے سارے لفظوں سے دو جملے حاصل ہوتے ہیں۔ (١) جو سوال تم کرو گے اس کا جواب تم کو تکلیف دہ ہوگا۔ (٢) نزول قرآن کے وقت اگر سوال کرو گے تو جواب ضرور ملے گا۔ ان دو جملوں سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سوال کا جواب قرآن مجید میں دیا جائے گا۔ نیز یہ کہ وہ جواب تم کو تکلیف دہ ہوگا۔ حالانکہ جو جواب اس سائل کو ملا۔ وہ قرآن میں نہیں۔ نہ تکلیف دہ ہے۔ بلکہ تسلی بخش اور فیصلہ کن ہے۔ پھر یہ روایت اس آیت کی محل نزول نہ ہوگی۔ بلکہ محل نزول یہ ہے کہ صحابہ کفار سے تنگ آکر جہاد کی اجازت چاہتے تھے۔ اور مصلحت الٰیہ میں ابھی وقت نہ آیا تھا۔ ان کو سمجھانے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی۔ چنانچہ اس آیت کے ساتھ ہی پہلے لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے جہاد کی بابت عرض معروض کیا تھا۔ اِبْعَثْ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (ہمارا افسر مقرر کیا جائے تو ہم اللہ کی راہ میں لڑیں) جب ان کی درخواست منظور ہوئی تو منہ پھیر گئے۔ میرے نزدیک آیت کے یہ معنی ہیں۔ رہی روایات مذکورہ سو وہ سنداً صحیح ہیں یعنی واقعہ ایسا ضرور ہوا کہ بعض لوگوں نے سوال کئے لکن سوالوں کو اس آیت سے متعلق کرنا یہ راوی کا فہم ہے۔ ایسا ہوا کرتا ہے کہ ایک راوی محض اپنے فہم سے کسی واقعہ کو آیت کا محل تہ دل سمجھ کر بیان کردیتا ہے چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے رسالہ فوز الکبیر میں ایسا لکھا ہے۔ اللہ اعلم (منہ) جیسا وہ اپنی طرف سے من گھڑت باتیں اللہ تعالیٰ کی نسبت لگاتے ہیں کہ سائبہ کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے نہ تو کوئی بحیرہ اور نہ کوئی سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام مقرر کئے ہیں مگر کافر جو ان کی حد درجہ تعظیم و تکریم کرتے ہیں اور ان کو اپنے پر حرام سمجھتے ہیں اور اس حکم کو اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرتے ہیں۔ یہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور بہت سے ان میں سے بے عقل بے سمجھ ہیں۔ (شان نزول (مَاجَعَلَ اللّٰہُ مِنْ بَحِیْرَۃٍ) عرب میں جہاں اور جہالتیں تھیں یہ بھی ایک دستور تھا کہ جس اونٹنی کے پیٹ سے پانچ بچے پیدا ہوچکیں اس کے کان پھاڑ کر چھوڑ دیتے نہ اس پر سوار ہوتے نہ اس کی اون کترتے نہ اس کو دانے پانی سے خواہ کسی کی زمنل میں جاتی روکتے اور اس کا نام بحیرہ یعنی کان کٹی رکھتے۔ ایسا ہی اگر کوئی بیمار ہو کر نذر مانتا کہ اگر میں اچھا ہوا یا میرا فلاں کام ہوگیا تو میں ایک اونٹنی اللہ تعالیٰ کی نذر کروں گا تو پھر اس اونٹنی کو روک ٹوک نہ ہوتی بلکہ نہایت ادب سے دیکھی جاتی جہاں چاہتی جاتی جہاں چاہتی کھا پی لیتی اس کا نام سائبہ یعنی چھوڑی ہوئی رکھتے۔ اگر کسی اونٹنی کو یکے بعد دیگرے دو مادہ بچے پیدا ہوتے تو پچھلی کو متبرک جانتے اور اس کا نام وصیلہ (یعنی پہلی سے ملی ہوئی) رکھتے ایسا ہی جس اونٹ کا بوتا قابل سواری ہوتا اس پر سواری وغیرہ چھوڑ دیتے اور اس کا نام حامی رکھتے یعنی اپنی حفاظت کرنے والا۔ غرض ان سب کو اس طرح سے حق پنشن دیتے اور اس عطیہ کو حکم اللہ تعالیٰ بتلاتے۔ اس کی تکذیب کو یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) ان کی بے سمجھی کی دلیل اس سے زیادہ اور کیا ہوگی کہ جب کوئی ان سے کہے کہ اللہ کے اتارے ہوئے کلام قرآن شریف اور رسول کی بتلائی ہوئی شریعت کی طرف آئو اور اسی پر عمل کرو تو بجائے کسی دلیل طلبی یا مطلب فہمی کے جھٹ سے کہتے ہیں صاحب ! جس طریق پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو کام کرتے پایا ہے وہی ہم کو کافی ہے۔ یہ نہیں سمجھتے کہ مذہبی امور میں بغیر حکم اللہ تعالیٰ اور رسول کے کسی کی بات معتبر نہیں ہوا کرتی مگر اسی حالت میں کہ فرمودہ خدائی کے مطابق ہو۔ کیا یہ اسی آبائی لکیر کے فقیر رہیں گے۔ اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ جانتے ہوں اور نہ راہ راست پائے ہوں۔ اگر کہیں کہ نہیں ہم اس حال میں اپنے باپ دادا کی نہ سنیں گے بلکہ ان کے کاموں کو عقل سے جانچیں گے تو بس ثابت ہوا کہ محض آبائی طریق کا نام لینا جب تک کہ وہ صحیح نہ ہو صحیح نہیں۔ مسلمانو ! اس میں شک نہیں کہ ایسے لوگوں کو جو محض بے سمجھی سے آبائی تقلید میں پھنسے ہوئے ہوں راہ راست پر لانا ذرا مشکل امر ہے اسی لئے تم کو تسلی رہے کہ جب تم خود ہدایت یاب ہوئے تو گمراہ لوگ تم کو ضرر نہ دے سکیں یعنی جب تم اپنی ہدایت پر کار بند رہے جس کار بندی میں گمراہوں کو بملاطفت سمجھانا بھی شامل ہے تو بعد سمجھانے بتلانے کے بھی جو گمراہ رہیں گے ان کا گناہ تم پر نہیں ہوگا۔ پڑے اپنا سر کھائیں تم سب نے اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تم کو تمہارے کاموں پر مطلع کرے گا (شان نزول مسلمان کفار کی مجلسوں میں بیٹھتے تو ان کی بدزبانی اور کفر شرک کی باتیں سن کر نہایت ملول ہوتے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ١٢) مسلمانو ! یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مہربانی سمجھو کہ علاوہ احکام شریعت کے تمدنی احکام بھی تم کو سکھاتا ہے چنانچہ ایک حکم یہ ہے۔ کہ جب تم میں سے کسی کو موت آئے تو اگر اس نے کچھ وصیت کرنی ہو تو وصیت کرنے پر دو عادل گواہ تم مسلمانوں میں سے ہونے چاہیے اور اگر تم سفر میں ہو اور اسی حالت میں تم کو موت آجائے اور اپنے مسلمانوں سے گواہ میسر نہ ہوں تو غیر قوم میں سے دو گواہ ہونے چاہئے اب ان کی گواہی لینے کا قاعدہ سنو ! کہ ! ان کی معمولی گواہی میں اگر تم کو شبہ ہو تو بعد نماز عصر حاکم کے سامنے ان کو کھڑا کرو پھر وہ دونوں اللہ کے نام کی قسم کھاتے ہوئے کہیں کہ ہم اس قسم کا کچھ عوض کسی سے نہیں لیتے اور سچ کہتے ہیں خواہ ہمارا کوئی قرابتی بھی کیوں نہ ہو اور ہم اللہ تعالیٰ لگتی گواہی چھپاتے نہیں۔ ورنہ ہم خود گنہگار ہوں گے (شہادۃ بینکم) ایک شخص مسلمان مدینہ منورہ سے بغرض تجارت سفر کو گیا۔ دو عیسائی بھی اس کے ہمراہ ہو لئے۔ اتفاقاً راہ میں مسلمان مرض الموت کے پھندے میں پھنسا اور اپنے ہمراہیوں سے کہہ دیا کہ بعد میرے مرنے کے میرا اسباب میرے وارثوں کو پہنچا دینا اور خفیہ سے ایک فہرست اسباب بھی کسی تہ میں رکھ دی۔ ہمراہیوں نے اس کے اسباب میں سے ایک چاندی کا مرصع پیالہ نکال کر باقی اس کے وارثوں کے پاس پہنچا دیا۔ وارثوں کے ہاتھ جب وہ فہرست آئی تو مقابلہ سے انہوں نے پیالہ نہ پایا۔ ان سے دریافت کیا تو وہ منکر ہوگئے۔ آخر یہ معاملہ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور پہنچا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) حکم یہ ثابت ہوا کہ سفر میں وصیت کرنے کی ضرورت آن پڑے تو ہم بھی ایسا کریں مسلمان گواہ تو مقدم ہیں نہ ہوں تو غیرمسلم بھلے مانس گواہ کر لئے جائیں۔ منہ پھر اگر کسی ذریعہ سے معلوم ہو کہ یہ گواہ حلف دروغی سے گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں تو اور دو آدمی میت کے قرابتیوں میں سے جن کی حق تلفی ہوئی ہے اللہ کی قسم کھاتے ہوئے کہیں کہ ہماری شہادت ان دونوں گواہوں کی شہادت سے زیادہ معتبر ہے اور ہم نے اس میں کوئی زیادتی نہیں کی ورنہ ہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالم ہوں گے قرین قیاس ہے کہ اگر اس طرح گواہی درست بتا دیں گے اور ڈریں گے کہ ہماری قسموں کے بعد اور قسموں کی نوبت نہ آئے یعنی وارثان میت ہماری قسموں کی تکذیب نہ کریں پس تم ایسا نہ کرو اور اللہ سے ڈرو اور اس کے احکام سنو ! بدکاری کی راہ اختیار نہ کرو ورنہ یاد رکھو اللہ تعالیٰ بدکاروں کو جب وہ اپنی بدکاری میں حد تک پہنچ جائیں راہ راست نہیں دکھایا کرتا۔ پس تم اس بلائے بےدرماں سے بچتے رہو۔ اور اس دن (قیامت کے روز) کو یاد رکھو جس دن اللہ تعالیٰ رسولوں کو جمع کر کے بطور فہمائش لوگوں کے پوچھے گا بتلائو تم کو لوگوں کی طرف سے کیا جواب ملا تھا۔ وہ (انبیائ) مارے دہشت اور ہول قیامت کے سب کچھ بھولے ہوں گے۔ کہیں گے ہم کو تو کچھ بھی معلوم نہیں غیب کی باتیں تو ہی جانتا ہے تیرے سوا اور کون ہے؟ یہ سوال بلکہ اس سے بھی بڑے بڑے سوال انبیاء سے ہوں گے کیا تم نہیں جانتے ” کس نمے آرد کہ آنجا دم زند“ کوئی کتنا ہی بڑے منصب کا نبی یا ولی کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا مگر بعض لوگ محض نادانی سے کسی نبی یا ولی سے کوئی کام خلاف عادت ظہور پذیر ہوتا دیکھ لیں تو جھٹ سے اس میں کوئی نہ کوئی نشان یا خاصۂ الوہیت سمجھ لیتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ ” کوئی محبوب ہے اس پردۂ زنگاری میں“ چنانچہ انہی نادانوں کی فہمائش کو حضرت مسیح (علیہ السلام) سے بھی سوال ہوگا اس موقع کو یاد کر جب اللہ تعالیٰ کہے گا۔ اے عیسیٰ مریم کے بیٹے میری نعمتوں کو جو تجھ پر اور تیری ماں پر تھیں یاد کر جب میں نے تجھ کو روح القدوس یعنی جبرئیل کے ساتھ قوت دی جس کا اثر یہ تھا کہ تو گہوارہ کی عمر یعنی شیر خواری کے زمانہ میں اور بڑھاپے میں لوگوں سے وعظ و نصیحت کی باتیں کیا کرتا تھا اور جب میں نے تجھ کو کتاب یعنی تہذیب کی باتیں اور توریت اور انجیل بلا مدد استاد سکھائی تھیں اور جب کہ تو میرے حکم سے پرندوں کی سی صورتیں مٹی سے بناتا تھا پھر ان میں پھونک دیتا تو وہ میرے حکم سے پرند ہوجاتے اور اڑ جاتے اور تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کرتا تھا۔ اور جب تو میرے حکم سے مردوں کو زندہ کر کے لوگوں کے سامنے نکالتا تھا۔ اور جب میں نے بنی اسرائیل سے تجھ کو محفوظ رکھا جس وقت تو ان کے پاس معجزات بینہ لایا تو ان میں سے کافر لوگ بجائے تیری تسلیم کے کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادو ہے ( شان نزول (اِذْ قَال اللّٰہُ یٰعِیْسٰے) حضرت مسیح (علیہ السلام) کے حق میں یہودیوں اور عیسائیوں کے افراط تفریط کی اصلاح کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ (منہ) (اِذْ قَال اللّٰہُ یٰعِیْسٰے ابن مریم) ان آیتوں میں اللہ جل شانہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی زندگی کے واقعات عجیبہ کا جو بطور معجزہ ان سے ظہور ہوئے تھے بیان کرتا ہے اس لئے معجزہ کی حقیقت کا بیان کرنا اور سر سید احمد خان مرحوم کے شبہات کا جواب دینا ضروری ہے۔ علماء اسلام نے جو معجزہ کی تعریف کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ معجزہ ایک ایسا فعل ہے جو مدعی نبوت سے خرق عادت کے طور پر ظہور پذیر ہو۔ مگر ہمارے نزدیک معجزہ خرق عادت ہے بھی اور نہیں بھی۔ خرق عادت کا لفظ جو علماء نے درج کیا ہے اس سے ان کی جو مراد ہے وہ اور ہے اور ہم نے جو انکار کیا ہے اس سے ہماری مراد اور ہے۔ ہمارے نزدیک معجزہ موافق عادت اس لئے ہے کہ ہم اس کو نبوت کے ساتھ لازمہ مجہول الکیفیت مانتے ہیں یعنی جیسا نبوت کے لئے کوئی قانون الٰہی ضرور ہے اور ہونا بھی چاہئے۔ تاکہ اتنا بڑا سلسلہ نبوت بے قانون نہ رہے گو ہمیں اس کا علم نہیں اور ہم اس کو نہ جانیں کہ وہ کیا ہے لیکن دراصل وہ ضرور کسی قانون سے مربوط ہے اسی طرح نبوت سے ایک مجہول الکیفیت تعلق معجزہ کو ہی سید صاحب کو بھی تسلیم ہے کہ :۔ ” تمام قوانین قدرت ہم کو معلوم نہیں اور جو معلوم ہیں وہ نہایت قلیل ہیں اور ان کا علم بھی پورا نہیں ہے بلکہ ناقص ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب کوئی عجیب امر واقع ہو اور اس کے وقوع کا کافی ثبوت بھی موجود ہو اور اس کا وقوع معلومہ قانون قدرت کے مطابق بھی نہ ہوسکتا ہو۔ اور یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ بغیر دھوکہ و فریب کے فی الواقع واقع ہوا ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا۔ کہ بلاشبہ اس کے وقوع کے لئے کوئی قانون قدرت ہے مگر اس کا علم ہم کو نہیں کیونکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ خلاف قانون قدرت کوئی امر نہیں ہوتا۔ اور جب وہ کسی قانون قدرت کے مطابق واقع ہوا ہے تو وہ معجزہ نہیں۔ کیونکہ ہر شخص جس کو وہ قانون معلوم ہوگیا ہو اس کو کرسکے گا۔ (تفسیر احمدی جلد ٣ صفحہ ٣٤) سید صاحب کی عبارت مذکورہ بھی بلند آواز سے پکار رہی ہے کہ عناصر کے لئے موجودہ مروجہ قانون ہی پر بس نہیں بلکہ ممکن ہے۔ کہ اس کے سوا کوئی اور قانون بھی ہو۔ پس ممکن ہے کہ وہی قانون ہو جس کے ظہور کا وقت ہمارے نزدیک عنداللہ کسی ایسے قانون سے وابستہ ہو جو نبوت کے ساتھ ایک خاص تعلق رکھتا ہے جس طرح نبوت کا ظہو رکسی قانون الٰہی کے ماتحت ضرور ہے اور بحکم اللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ ہر ایک شخص اس عہدے کے لائق نہیں ہوسکتا اور ہو بھی کیونکر کلاہ خسروی و تاج شاہی بہرکل کے رسد حاشا و کلا حتیٰ کہ جملہ اہل اسلام بلکہ خود سید صاحب کو بھی اس کی انتہا بحکم خاتم النبیین مسلّم ہے۔ ٹھیک اسی طرح معجزہ کا ظہور بھی کسی غیر معلوم الحقیقت اور غیر مدرک قانون سے وابستہ ہے۔ یا اسی سلسلۂ نبوت سے استلزام رکھتا ہے یا کم سے کم اس کا نبوت سے اتنا تعلق ہو کہ مخالفین کے انکار اور بضد اصرار پر اس قانون کا وقت پہنچتا ہو۔ پس کونی ! بردا وسلاما (اے آگ ابراہیم کے حق میں سرد باسلامت ہوجا۔ ) کا وقت جب آیا تھا تو اس کا ظہور بھی اسی طرح ہوا تھا۔ کہ جس طرح نُحْرِجُ بِہٖ زَرْعًا (ہم پانی کے ساتھ نباتات پیدا کرتے ہیں) کا ہوتا ہے۔ اور اگر ہم آیات قرآنی پر غور کریں تو ہمیں اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ نبوت کے ساتھ ظہور معجزہ کو ایک خاص تعلق ہے مَا نُرْسِل بالاٰیٰتِ الاَّ تَخْوِیْفًا (ہم معجزات ڈرانے کے لئے بھیجا کرتے ہیں) اس کے علاوہ یہ بھی بتلا دیا کہ ما کان لرسول اَنْ یَّاتِی بِاٰیَۃٍ الاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ (کسی رسول کی طاقت نہیں کہ بغیر ارادہ الٰہی معجزہ دکھا سکے) پس سید صاحب کا یہ کہنا کہ ” جب کسی قانون قدرت کے مطابق واقع ہوا ہے تو معجزہ نہیں کیونکہ ہر وہ شخص جس کو وہ قانون معلوم ہوگیا ہے۔ کرسکے گا۔“ کیونکر صحیح ہوسکتا ہے جب کہ وہ نبوت کا لازمہ ہے اور اس کے ساتھ ایک مجہول الکیفیت تعلق رکھتا ہے تو جیسے نبوت بہ حکم اللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ (اللہ تعالیٰ نبوت کے محل کو خوب جانتا ہے۔) اس کلیہ کے ماتحت نہیں کہ جسے قانون معلوم ہو وہ نبی بن جائے تو معجزہ کس طرح کرسکے گا۔ زیادہ وضاحت اس تقریر کی اس وقت ہوسکتی ہے جب ہم نظام عالم پر غور کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ بعض ستارے تو ہمیں ہر روز دکھائی دیتے ہیں اور بعض برسوں بعد اور بعض صدیوں بعد اور ایک ایسے بھی ہیں کہ ان کے ظہور کا وقت کسی حساب میں آج تک نہیں آسکا۔ لطف یہ کہ بڑے بھی ایسے ہوں کہ اگر وہ ظہور کریں تو خواہ دنیا کے کسی حصہ میں ہوں ممکن نہیں کہ مخفی رہیں تاہم وہ لَا یُجَلِّیْھَا لِوَقْتِھَا الاَّھُوَ کے مصداق ہیں پس معجزہ میں اعجاز انہیں معنے سے ہے کہ وہ بحسب اس قانون مقررہ کے غیر نبی سے ہو نہیں سکتا۔ یا یوں کہو کہ فطرت نے اس قانون کو غیر نبی سے تعلق ہی نہیں دیا۔ جیسے کہ پانی سے حرارت کو تعلق نہیں بخشا اس کی واضح مثال میدان جنگ میں بہادروں کی کارگذاری سے ملتی ہے کہ وہی تلوار جس سے بہادر کئی ایک سر تن سے جدا کرسکتا ہے کسی بزدل کے ہاتھ دی جائے تو بجز اپنے ہی نقصان کرلے نس کے کچھ نہ کرسکے گا۔ سچ ہے لِکُلِّ فَنٍّ رِجَالٌ ہر کسے را بہر کارے ساختند میل اور درولش انداختند ہم اس تقریر میں جیسے علماء اسلام سے متفرد نہیں کیونکہ انہوں نے جو خرق عادت کا لفظ داخل تعریف کیا ہے اس عادت سے ان کی مراد عام معمولی عادت ہے سید صاحب سے یہی مخالف نہیں۔ سید صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں کہ : ” معجزات و کرامات سے جب کہ ان کے معنوں میں غیر مقید ہونا قانون فطرت کا مراد لیا جائے تو (ہم) انکار کرتے ہیں اور اگر ان کے معنوں میں یہ بھی داخل کیا جائے کہ وہ مطابق قانون قدرت کے واقع ہوتے ہیں تو صرف نزاع لفظی باقی رہ جاتی ہے کیونکہ جو امر کہ واقع ہوا اور جس شخص کے ہاتھ سے واقع ہوا اس کو ہم تسلیم کرتے ہیں مگر وہ ان کا معجزہ یا کرامت نام رکھتے ہیں ہم اس کا یہ نام نہیں رکھتے۔“ ج ٣ صفحہ ٣٨ (نعم الوفاق وحبذا الاتفاق) نام کی کیا بات ہے۔ آپ نام کچھ ہی رکھ لیں۔ کام سے کام ہے۔ نام سے نہیں۔ سید صاحب نے اپنے انکار معجزات کو ایک اور پہلو سے واضح لفظوں میں بھی بتایا ہے جن کا نقل کرنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔ آپ فرماتے ہیں کہ : ” حکماء و فلاسفہ نے معجزات یا کرامات کا انکار کسی وجہ سے کیا ہو ہمارا انکار صرف اس بناء پر نہیں کہ وہ مخالف عقل کے ہیں اور اس لئے ان سے انکار کرنا ضرور ہے۔ بلکہ ہمارا انکار اس بنا پر ہے کہ قرآن مجید سے معجزات و کرامات یعنی ظہور امور کا بطور خرق عادت یعنی خلاف فطرت یا خلاف جبلت کے امتناع پایا جاتا ہے جس کو ہم مختصر لفظوں میں یوں تعبیر کرتے ہیں۔ کہ کوئی امر خلاف قانون قدرت واقع نہیں ہوتا۔“ (جلد ٣ صفحہ ٣٧) مختصر یہ کہ سید صاحب کو معجزہ سے انکار نہیں۔ بلکہ مطلب ان کا یہ ہے کہ قرآن شریف میں معجزات کا ذکر نہیں پس ہماری کوشش صرف یہ ہونی چاہئے کہ ہم سید صاحب اور ان کے ہم خیالوں کو قرآن شریف سے معجزہ تلاش کردیں۔ پس ہم آیت زیر حاشیہ کے بیان کی طرف آتے ہیں اس مقام پر اللہ جل شانہ نے حضرت مسیح کی کئی ایک باتوں کا یا ہمارے محاورے میں معجزات کا ذکر کیا ہے۔ اول تَکَلُّمْ فِی الْمَھْدِ ہے اس کا ذکر تو کسی قدر ہم جلد ثانی میں کر آئے ہیں۔ دوئم خَلْقِ طَیْر یعنی جانوروں کا بنانا۔ سید صاحب اس معجزے کی تقریر یوں کرتے ہیں :۔ ” یہ اس حالت کا ذکر ہے جب کہ حضرت عیسیٰ بچے تھے۔ اور بچپنی کے زمانہ میں بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے۔“ (تفسیر احمدی جلد ثانی ص ٢٣٥) اس توجیہ کی بنا سید صاحب نے ایک غیر مشہور انجیل طفولیت پر رکھی ہے چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ :۔ ” انجیل اوّل (طفولیت) میں یہ قصہ اس طرح پر لکھا ہے :۔ ” اور جب کہ حضرت عیسیٰ کی عمر سات برس کی تھی۔ وہ ایک روز اپنے ہم عمر رفیقوں کے ساتھ کھیل رہے تھے اور مٹی کی مختلف صورتیں یعنی گدھے بیل۔ چڑیاں اور اور مورتیں بنا رہے تھے۔ ہر شخص اپنی کاریگری کی تعریف کرتا تھا۔ اور اوروں پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔ تب حضرت عیسیٰ نے لڑکوں سے کہا کہ میں ان مورتوں کو جو میں نے بنائی ہیں چلنے کا حکم دوں گا اور فی الفور وہ حرکت کرنے لگیں گی اور جب انہوں نے ان کو واپس آنے کا حکم دیا تو واپس آئیں انہوں نے پرندوں اور چڑیوں کی مورتیں بھی بنائی تھیں اور جب ان کو اڑنے کا حکم دیا تو وہ اڑنے لگیں اور جب انہوں نے ان کو ٹھیر جانے کا حکم دیا تو وہ ٹھیر گئیں۔ اور وہ ان کو کھانا اور پانی دیتے تھے تو کھاتی پیتی تھیں۔ جب آخر کار لڑکے چلے گئے اور ان باتوں کو اپنے والدین سے بیان کیا تو ان کے والدین نے ان سے کہا کہ بچو ! آئندہ سے اس کی صحبت سے احتراز کرو۔ دیکھو کہ وہ جادوگر ہے اس سے بچو اور پرہیز کرو اور اب اس کے ساتھ کبھی نہ کھیلو۔ “ ” اور انجیل دوئم میں اس طرح پر ہے ” جب حضرت عیسیٰ کی عمر پانچ برس تھی اور مینہ برس کر کھل گیا تھا۔ حضرت عیسیٰ عبرانی لڑکوں کے ساتھ ایک ندی کے کنارے کھیل رہے تھے۔ اور پانی کنارہ کے اوپر بہہ کر چھوٹی چھوٹی جھیلوں میں ٹھیر رہا تھا۔ مگر اسی وقت پانی صاف اور استعمال کے لائق ہوگیا۔ حضرت عیسیٰ نے اپنے حکم سے جھیلوں کو صاف کردیا اور انہوں نے ان کا کہنا مانا تب انہوں نے ندی کے کنارہ پر سے کچھ نرم مٹی لی اور اس کی بارہ چڑیاں بنائیں اور ان کے ساتھ اور لڑکے بھی کھیل رہے تھے مگر ایک یہودی نے ان کاموں کو دیکھ کر یعنی ان کا سبت کے دن چڑیوں کی مورتیں بنانا دیکھ کر بلا توقف ان کے باپ یوسف سے جا کر اطلاع کی اور کہا کہ دیکھ تیرا لڑکا ندی کے کنارے کھیل رہا ہے اور مٹی لے کر اس کی بارہ چڑیاں بنائی ہیں اور سبت کے دن گناہ کر رہا ہے۔ تب یوسف اس جگہ جہاں حضرت عیسیٰ تھے آیا۔ اور ان کو دیکھا تب بلا کر کہا کیوں تم ایسی بات کرتے ہو جو سبت کے دن کرنا جائز نہیں ہے۔ تب حضرت عیسیٰ نے اپنی ہاتھوں کی ہتھیلیاں بجا کر چڑیوں کو بلایا اور کہا جائو اڑ جائو اور جب تک تم زندہ رہو مجھے یاد رکھو۔ پس چڑیاں شور مچاتی ہوئی اڑ گئیں یہودی اس کو دیکھ کر متعجب ہوئے اور چلے گئے اور اپنے ہاں کے بڑے آدمیوں سے جا کر وہ عجیب و غریب معجزہ بیان کیا جو حضرت عیسیٰ سے ان کے سامنے ظہور میں آیا۔“ (صفحہ ٢٣٨) یہاں تک تو ہمیں بھی مفر نہیں بلکہ موید ہے مگر آگے چل کے سید صاحب نے جو استثناء کیا ہے وہ ضرور قابل غور ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں :۔ ” جب تاریخانہ تحقیق کی نظر سے اس پر غور کی جاتی ہے تو اصل بات صرف اس قدر تحقیق ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ بچپنی میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنے میں جانور بناتے تھے اور جیسے کبھی کبھی اب بھی ایسے موقعوں پر بچے کھیلنے میں کہتے ہیں (علی گڑھ میں کہتے ہوں گے) اللہ تعالیٰ ان میں جان ڈال دے گا۔ وہ بھی کہتے ہوں گے مگر ان دونوں کتابوں کے لکھنے والوں نے اس کو کراماتی طور پر بیان کیا کہ فی الحقیقت ان میں جان پڑجاتی تھی۔ قرآن مجید نے اسواقعہ کو اس طرح پر بیان کیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی امر قوی نہ تھا۔ بلکہ صرف حضرت مسیح کا خیال زمانہ طفولیت میں بچوں کے ساتھ کھیلنے میں تھا۔ “ اس کے بعد کم زبان علماء پر نظر شفقت فرماتے ہیں : ” علماء اسلام ہمیشہ قرآن مجید کے معنے یہودیوں اور عیسائیوں کی روایتوں کے مطابق اخذ کرنے کے مشاق تھے اور بلا تحقیق ان روایتوں کی تقلید کرتے تھے۔ انہوں نے ان الفاظ کی اسی طرح تفسیر کی جس طرح غلط ملط عیسائیوں کی روایتوں میں مشہور تھی اور اس پر خیال نہیں کیا کہ خود قرآن مجید ان روایتوں کی غلطی کی تصحیح کرتا ہے۔“ ص ٢٣٩ سید صاحب علماء اسلام پر نظر شفقت فرماتے ہوئے ہمیشہ یہی القاب بخشا کرتے تھے کبھی یہودیوں کے مقلد کبھی شہوت پرست زاہد۔ کوڑ مغز ملا سچ ہے بلا سے کوئی ادا ان کی بدنما ہوجا کسی طرح سے تو مٹ جائے ولولہ دل کا مگر ہم بڑے ادب سے گذارش کرتے ہیں کہ جناب والا کو بڑھاپے کی وجہ سے خود اپنی ہی تصنیفات ذہن نشین نہیں رہی تھیں۔ ذیل میں ہم ایک شہادت آپ ہی کی تصنیف سے نقل کرتے ہیں جس سے ثابت ہوگا کہ علماء اسلام تو یہودیوں اور عیسائیوں کے مقلد ہوں گے مگر آپ نے ان کی تقلید کو خوب مدلل اور مبرہن کر کے ان کو سبکدوش فرمایا ہے جس کے لئے وہ آپ کے شکر گذار ہیں آپ ایک جگہ کتب سابقہ کے اعتبار اور عدم اعتبار کے متعلق بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔ ” کتابوں کی معتبری اور غیر معتبری دریافت کرنے کا اصل مدار اس کے مصنف کی معتبری اور غیر معتبری پر ہے پس جس کتاب کی معتبری اور غیر معتبری دریافت کرنی ہو۔ تو اول یہ بات دیکھنی چاہئے کہ اس کا لکھنے والا معتبر شخص ہے یا نہیں۔ اگر معتبر ہے تو وہ کتاب بھی معتبر ہے اور اگر معتبر نہیں ہے تو وہ کتاب بھی معتبر نہیں ہے۔ پھر اگر وہ کتاب معتبر شخص کی طرف منسوب ہوتی ہے تو اس بات کی سند درکار ہوتی ہے کہ درحقیقت یہ کتاب اسی شخص کی لکھی ہوئی ہے اور یہ بات ثابت نہیں ہوتی جب تک ہمارے زمانہ سے اس کتاب کے لکھنے والے تک سند متصل ہمارے پاس نہ ہو اور سند متصل ہم اس کو کہتے ہیں کہ کسی معتبر شخص نے اس کتاب کو اصل لکھنے والے سے پڑھا ہو۔ پھر اس سے دوسرے نے پھر اس سے تیسرے نے یہاں تک کہ ہمارے زمانہ تک اسی طرح اس کی گواہی پہنچی ہو۔ چنانچہ حاشیہ بطور مثال قرآن مجید کی سند متصل جس طرح کہ مجھ تک پہنچی ہے لکھتا ہوں اسی طرح پر اور کتابوں کی بھی سند متصل ہم چاہتے ہیں مگر ان کتابوں (مندرجہ بائیبل) کی نسبت ایسی سند متصل ہمارے پاس نہیں ہے۔ اس لئے ان کتابوں کے معتبر اور غیر معتبر ٹھیرانے کو دوسرا قاعدہ بلحاظ شہرت اور قبول کے قرار پایا ہے پس ان جملہ کتابوں کی خواہ وہ بالفعل بائیبل میں داخل ہیں یا نہیں۔ چار قسمیں قرار پائی ہیں۔ قسم اول جن کتابوں کو علماء ہر وقت نے بلارد و انکار قبول کیا اور سب کا ان کی صحت پر اتفاق ہوا اور شہر بہ شہر مشہور ہوئیں اور علماء ان کی تعلیم و تعلم میں قرناً بعد قرنٍ مشغول و مصروف ہوئے اور کبھی اور کسی زمانہ میں ان کی صحت و اعتبار پر رد و انکار نہیں ہوا وہ سب معتمد اور صحیح ہیں۔ قسم دوئم وہ کتابیں ہیں جن کو معتبر لکھنے والوں نے لکھا اور اکثر علماء نے ان کو تسلیم کیا۔ مگر بعضوں نے ان کے تسلیم کرنے میں انکار بھی کیا۔ یا کسی عہد میں وہ کتابیں اکثر علماء کے نزدیک مقبول رہیں اور معتبر اور مقدس لوگوں نے ان سے سند لی اور اپنی تحریرات میں ان کے اقوال اخذ کئے۔ مگر پھر کسی زمانہ میں متروک ہوگئیں یا یہ کہ کسی زمانہ میں ان کی شہرت ہوئی اور پھر وہ شہرت جاتی رہی۔ ان کتابوں کو بھی ہم صحیح اور معتمد مانتے ہیں مگر پہلی قسم سے درجہ اعتبار میں کمتر جانتے ہیں“ (تفسیر احمدیہ جلد اول صفحہ ١٨٦) اسی جلد تفسیر میں ان کتابوں کی بابت جن سے آپ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی طفولیت کا حال لکھا ہے رقمطراز ہیں :۔ ” انجیل اول طفولیت دوسری صدی عیسوی میں ناسٹک کے ہاں جو عیسائیوں کا ایک فرقہ ہے مروج اور مسلم تھی اور از منہ مابعد میں بھی اس کے اکثر بیانات پر اکثر مشہور عیسائی عالم مثل پوسیبس واتھا ناسیس وایپی فینس و کرائی ساسٹم وغیرہ اعتقاد رکھتے تھے کہ بیس ڈی کیسٹرڈ ایک انجیل طامسن کا ذکر کرتا ہے کہ ایشیا و افریقہ کے اکثر گرجائوں میں پڑھی جاتی تھی اور اسی پر لوگوں کا دارومدار تھا۔ فیبریشش کے نزدیک وہ یہی انجیل تھی (جس سے سید صاحب نے عبادات متعلقہ جانور سازی مسیح (علیہ السلام) بزمانہ طفولیت نقل کی ہیں) انجیل دوم طفولیت اصل یونانی قلمی نسخہ سے ترجمہ کی گئی ہے جو کتب خانہ شاہ فرانس میں دستیاب ہوا تھا۔ یہ طامسن کی طرف سے منسوب ہے اور ابتدائً انجیل مریم کے ساتھ شامل خیال کی گئی ہے۔“ (صفحہ ٢٣٧) ناظرین تقریرات مذکورہ بالا میں خود ہی غور کریں اور فیصلہ دیں کہ سید صاحب انہی انجیلوں کو جن میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے خلق طِیَر کا ذکر ہے کہاں تک صححن اور معتبر جانتے ہیں۔ اس فیصلہ کو ہم ناظرین کی رائے پر چھوڑ کر سید صاحب کے عذرات جو انہوں نے نفس قرآن کریم کی آیات کے متعلق کئے ہیں بتلا کر ان کے جوابات عرض کرتے ہیں۔ قرآن شریف نے جس خوبی اور تفصیل سے ان معجزات کو بیان کیا ہے واقعی اس سے بڑھ کر ممکن نہیں۔ مگر سید صاحب نے حسب عادت شریفہ ان سے بھی انکار کیا۔ مگر کمال یہ ہے کہ اصل وجہ جو ان سب ہاتھ پائوں مارنے کی ہے اس کا نام تک نہیں لیا۔ یعنی سپر نیچرل (خلاف عادت) جس کا جواب ہم کئی ایک مواضع میں دے چکے ہیں۔ پس مناسب ہے کہ ہم بھی اس میں سید صاحب کے متتبع بنیں اور انہی کی طرز تقریر اختیار کریں جس بات کو وہ مخفی رکھیں۔ ہم بھی ظاہر نہ کریں۔ سید صاحب نے جو تقریر اس مسئلہ پر کی ہے اس کو بتمامہ نقل کرنا مناسب ہے۔ فرماتے ہیں : ” اب اس پر بحث یہ ہے کہ کیا درحقیقت یہ کوئی معجزہ تھا۔ اور کیا درحقیقت قرآن مجید سے ان مٹی کے جانوروں کا جاندار ہونا اور اڑنے لگنا ثابت ہوتا ہے۔ تمام مفسرین اور علماء اسلام کا جواب یہ ہے کہ ہاں مگر ہمارا جواب یہ ہے کہ نہیں (کیوں نہ ہو۔ عالم بمنت یکطرف آں شوخ تنہا یک طرف) بشرطیکہ دل و دماغ کو ان خیالات سے جو قرآن مجید پر غور کرنے اور قرآن مجید کا مطلب سمجھنے سے پہلے عیسائیوں کی صحیح و غلط روایات کی تقلید سے بٹھا لئے ہیں خالی کر کے نفس قرآن مجید پر بنظر تحقیق غور کیا جائے (ان شاء اللہ تعالیٰ ہم ایسا ہی کریں گے اور سب نے ایسا ہی کیا ہے)۔ سورۃ آل عمران میں جو یہ الفاظ ہیں۔ اَنِّیٓ اَخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْراً بِاِذْنِ اللّٰہِ۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ میں مٹی سے پرندوں کی مورتیں بناتا ہوں۔ پھر ان میں پھونکوں گا۔ تاکہ وہ اللہ کے حکم سے پرند ہوجاویں۔ یہ بات حضرت عیسیٰ نے سوال کے جواب میں کہی تیّ مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پھونکنے کے بعد درحقیقت وہ پرندوں کی مورتیں جو مٹی سے بناتے تھے جاندار ہو بھی جاتی تھیں۔ اور اڑنے بھی لگتی تھی۔ فَیَکُوْنُ پر جو (ف) ہے۔ وہ عاطفہ تو ہو نہیں سکتی۔ کیونکہ وہ اگر عاطفہ ہو تو یَکُوْنُ طَیْراً اِنَّ کی خبر ہوگی اور اس کا عطف اخلق پر ہوگا۔ اور یَکُوْنُ طَیْراً میں یکون صیغہ متکلم کا نہیں ہے اور نہ اس کلام میں کوئی ضمیر اس طرح پر واقع ہوئی ہے کہ اسم اِنَّ کی طرف راجع ہوسکے اس لئے یَکُوْنُ طَیْراً نحو کے قاعدہ کے مطابق یا یوں کہو کہ بموجب محاورہ زبان عرب کے کسی طرح اِنَّ کی خبر نہیں ہوسکتا۔ اور فیکون کی (ف) عاطفہ قرار نہیں پا سکتی اب ضرور ہے کہ وہ (ف) تفریع کی ہو اور پھونکنے اور ان مورتوں کے پرند ہوجانے میں گو کہ درحقیقت کوئی سبب حقیقی یا مجازی یا ذہنی یا خارجی نہ ہو مگر ممکن ہے کہ متکلم ان میں ایسا تعلق سمجھا ہو کہ اس کو متفرع اور متفرع علیہ کی صورت میں یا سبب اور مسبب کی صورت میں بیان کرے (خواہ کذب صریح بھی کیوں نہ ہو) جہاں کلم مجازات کی بحث نحو کی کتابوں میں لکھی ہے اس میں صاف بیان کیا ہے کہ کلم مجازات سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ درحقیقت وہ ایک امر کو دوسرے امر کا حقیقی سبب کردیتے ہیں بلکہ متکلم اس طرح پر خیال کرتا ہے اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ پہلا امر دوسرے امر کا حقیقی یا خارجی یا ذہنی سبب ہو مگر صرف اس طرح کے بیان سے امر متفرع یا مسبب کا وقوع ثابت نہیں ہوسکتا جب تک کہ کسی اور دلیل سے ثابت نہ ہو کہ وہ امر فی الحقیقت وقوع میں بھی آیا تھا اور جس قدر الفاظ قرآن مجید کے ہیں ان میں یہ بیان نہیں ہوا ہے کہ وہ پرندوں کی مٹی کی مورتیں درحقیقت جاندار اور پرند ہو بھی جاتی تھیں۔“ (ص ٢٣٦) اس ساری تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ فَیَکُوْنُ طَیراً کلام محقق مصدق من اللہ نہیں ہے بلکہ مسیح کا مزعوم ہے یعنی حضرت مسیح نے ہی لڑکپن میں کہا تھا کہ دیکھو میں ایسی مٹی کی مورتیں بناتا ہوں اور ان میں پھونکتا ہوں تاکہ وہ جانور ہوجائیں پس یہی مدار ہے سید صاحب کے مذہب کا کہ فیکون ماقبل پر معطوف نہیں۔ چنانچہ سورۃ مائدہ کی آیت کے متعلق اسی بنا کے پختگی کے درپے ہیں فرماتے ہیں :۔ ” اس آیت میں بھی فیکون پر کی (ف) عاطفہ نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر وہ عاطفہ ہو تو اس کا عطف تخلق پر ہوگا۔ اور معطوف حکم معطوف علیہ میں ہوتا ہے اور معطوف علیہ کی جگہ قائم ہوتا ہے اور یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ اگر معطوف علیہ کو حذف کردیا جائے اور معطوف اس کی جگہ رکھ دیا جائے تو کوئی خرابی اور نقص کلام میں نہ ہونے پاوے اور اس مقام پر ایسا نہیں ہے کیونکہ اگر معطوف علیہ کو حذف کر کے فیکون طیرا اس کی جگہ رکھ دیں تو کلام اس طرح ہوجاتا ہے کہ اُذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ اِذْ تَکُوْنُ طَیْراً اور یہ کلام محض مہمل اور غیر مقصود ہے اب ضرور ہے کہ یہ (ف) بھی اسی طرح تفریع کی ہوجیسی کہ سورۃ آل عمران میں (ف) تفریع کی تھی اور اس (ف) کے ذریعے سے تنفخ متفرع علیہ اور تکون متفرع دونوں مل کر تخلق پر معطوف ہوں گے اور تقدیر کلام یوں ہوگی اُذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ اِذْتَنْفُخُ فِیْھَا فَتَکُوْنُ طَیْراً مگر اس صورت میں فتکون طیرا صرف تنفخ پر تفریع ہوگی اور اذ کا اثر جو مضارع پر آنے سے تحقق زمانہ ماضی کا ہے یا اس امر کو متحقق الوقوع کردینے کا ہے تکون تک نہیں پہنچتا۔ کو نکہ وہ اثر اس وقت پہنچتا جب کہ تکون کی (ف) عاطفہ ہوتی اور اس کا عطف تخلق پر جائز ہوتا۔ اس صورت میں تکون کو محض تفریعی تعلق اپنے متفرع کا وقوع ثابت نہیں ہوتا۔ اس تمام بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن مجید سے یہ بات تو ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ بچپنے کی حالت میں مٹی سے جانوروں کی مورتیں بناتے تھے اور پوچھنے والے سے کہتے تھے کہ میرے پھونکنے سے وہ پرند ہوجائیں گے مگر یہ بات کہ درحقیقت وہ پرند ہو بھی جاتی تھیں نہ قرآن مجید سے ثابت ہوتا ہے نہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے پس حضرت عیسیٰ کا یہ کہنا ایسا ہی تھا۔ جیسے کہ بچے اپنے کھیلنے میں بمقتضائے عمر اس قسم کی باتیں کیا کرتے ہیں۔“ ص ٢٤٠ شکر ہے کہ سید صاحب نے اپنی تقریر کو قواعد عربیہ پر خود ہی مبنی کیا ہے ورنہ اندیشہ تھا کہ اگر اس کے جواب میں علماء کے منہ سے یہ سنتے تو شائد کوئی اور معزز لقب عنایت کرتے۔ اس تقریر کا بھی مختصر مضمون یہ ہے کہ آیت موصوفہ میں فَتَکُوْنُ طَیراً کلام سابق پر عطف نہیں کیونکہ کلام مہمل ہوجائے گا۔ غالباً سید صاحب کا کافیہ اور شرح ملاجامی کی عبارت مندرجہ حاشیہ پر غور کرنے کا موقع نہ ملا ہوگا۔ ولما کان لقائل ان یقول ھذہ القاعدۃ منقضۃ بقولہم الذی یطیر فیغضب زید الذباب فان یطیر فیہ ضمیر یعود الی الموصول ویغضب المعطوف علیہ لیس فیہ ذلک الضمیر فاجاب بقولہ انما جاز الذی یطیر فیغضب زید الزباب لانھا ای الفاء فی ھذا الترکیب فاء السببیۃ ای فاء لھا نسبۃ الی السببیۃ بان یکون معناھا السببیۃ لا العطف فلا یرد نقضا علی تلک القاعدۃ اویکون معناھا السببیۃ مع العطف لکنھا تجعل الجملتین کجملۃ واحدۃ فیکتفی بالربط فی الاولی والمعنی الذی اذا یطیر فیغضب زید الذباب او یفہم منھا سببیۃ الاولی للثانیۃ فالمعنی الذی یطیر فیغضب زید بسببیتہ الذباب ویمکن ان یقدر فیہ ضمیر ای الذے یطیر فیغضب زید یطیر انہ الذباب (شرح جامی بحث عطف) ورنہ تصویر کا رخ اور ہی ہوتا جس طرح مثال مندرجہ کافیہ کی تصحیح خود شارح جامی نے کردی ہے اسی طرح سورۃ آل عمران کی آیت کی ہوسکتی ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے :۔ انی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون بنفخی طیرا باذن اللہ پس آپ کا فرمانا کہ نہ اس کلام میں کوئی ضمیر اس طرح پر واقعہ ہوئی ہے کہ اسم اِنَّ کی طرف راجع ہوسکے۔“ قابل نظر ہے۔ ایسا ہی سورۃ مائدہ کی آیت کے عطف ہونے میں بھی آپ نے جو استحالہ قائم کیا ہے استحالہ نہیں۔ بڑا استحالہ بقول آپ کے یہ ہے کہ کلام اس طرح پر ہوجاتا ہے کہ اذکر نعمتے علیک اذ تکون طیرا اور یہ کلام محض مہمل اور غیر مقصود ہے۔“ مگر یہ اہمال صرف آپ کے خیال تک ہی ہے۔ علماء عربیہ کے نزدیک اس میں بھی کوئی اہمال نہیں کیونکہ تکون کی ضمیر کے بجائے اس صورت میں اسم صریح رکھنا ہوگا اور سببیت کو لفظوں میں ظاہر کر کے تقدیر کلام یوں ہے اذکر نعمتے علیک اذتکون الھیئۃ التی تخلقھا من الطین بنفخک طیرا باذنی اس میں کیا اہمال ہے پس آپ ہی کے قول سے کہ ” جس مضارع کے صیغہ پر اِذْ کا اثر پہنچے گا وہ امر تو متحقق الوقوع ہوجائے گا۔“ بحکم عطف فتکون طیرا متحقق الوقوع ہوگیا۔ سید صاحب نے اس مسئلہ کی خاطر دور دور تک پیش بندیاں کی ہیں۔ آیۃ کے لفظ سے جو اَنِّیْ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ میں ہے حکم الٰہی مراد لیتے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں : ” ہم اسباب کی تحقیق سورۃ بقرہ میں لکھ آئے ہیں کہ آیت اور آیات اور آیات بنیات سے اللہ تعالیٰ کے احکام مراد ہوتے ہیں۔ جو انبیاء کو وحی کئے جاتے ہیں پس اس مقام پر بھی ہم آیت کے لفظ کے یہی معنی قرار دیتے ہیں۔“ (ج ٢ ص ١٤١) لیکن اس سے آگے اَنِّی أَخْلُقُ میں اَنَّ کے مفتوحہ ہونے سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا کہ کیوں ہے اس سے پہلے انی پر جو اَنِّی قَدْ جِئْتُکُمْ میں ہے۔ غور فرماتے رہے کہ : ” صاحب تفسیر ابن عباس نے بھی ان آیتوں کو بشارت کی آیتوں سے منقطع کیا ہے اور تقدیر کلام یوں کی ہے فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ قَالَ اَنِّی قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مگر اس تقریر میں وہی نقص باقی رہتا ہے کہ قال کے بعد ان مفتوحہ واقع ہوتا ہے مگر ہم تقریر کلام کی اس طرح پر کرتے ہیں۔ فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ قَالَ مُجِیْبًا لَھُمْ بانّی قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ۔“ (جلد ٢ صفحہ ٢٤٢) مگر میں پوچھتا ہوں کہ پہلے اَنَّ مفتوحہ کی طرح دوسرے کے فتح کی بھی کوئی وجہ ہے اگر وہ اٰیَۃ سے بدل الکل ہے جیسا کہ ظاہر ہے تو وہ صورت آیت سے حکم الٰہی مراد لینے کے بدل و مبدل منہ میں وحدت مصداق نہیں رہتی۔ کمالایخفی۔ اور اگر پہلے انی سے یہ ان بدل کہیں تو یہ بھی صحیح نہیں۔ کیونکہ بقول آپ کے پہلا اَنَّ وعظ و نصیحت کے زمانہ کا ہے۔ اور دوسرا اَنَّ بچپنے کا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں :۔ ” جب حضرت عیسیٰ لوگوں میں وعظ و نصیحت کرنے لگے اور اللہ تعالیٰ کے احکام سنانے لگے تو ان کی قوم نے کہا کہ تم یہ کیوں کرتے ہو اس کے جواب میں حضرت عیسیٰ نے فرمایا قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ “ (ج ٢ ص ٢٤٢) پس جب کہ ان دونوں کا مصداق ہی نہیں جو بدل الکل میں ہونا ضروری ہے تو بدل کیونکر بنا اور بدل الغلط کا تو فصیح کلام میں ہونا ہی غلط ہے علیٰ ہذا دوسرے سے بدلوں میں بھی کئی شبہات قائم ہیں پس ضرور ہے کہ ایۃ سے مراد حکم الٰہی نہ ہو بلکہ معجزہ ہو اور اَنِّی أَخْلُقُ لَکُمْ اس کا بدل یا عطف بیان جو چاہو بنا لو۔ فالحمدللہ احیاء اموات :۔ اس سے بھی سید احمد خان صاحب منکر ہیں۔ کیوں نہ ہو۔ سپر نیچرل کا اصول بہت سے فروع رکھتا ہے۔ مجھے سخت تعجب اس بات کا ہمیشہ سے ہے کہ سید صاحب مرحوم علماء کو بدنام اور بے اعتبار کرنے کے لئے یہودیوں کے مقلد اور عیسائیوں کے متبع بنایا کرتے تھے۔ چنانچہ اس معجزے کے انکار کی ذیل میں بھی ترش روئی سے فرماتے ہیں۔ ” علماء اسلام کی عادت ہے کہ قرآن مجید کے معنے یہودیوں اور عیسائیوں کی روایتوں کے مطابق بیان کرتے ہیں۔ اس لئے کہ انہوں نے (بڑا ہی غضب کیا کہ) ان آیتوں کے معنے بھی بیان کئے ہیں کہ حضرت عیسیٰ اندھوں کو آنکھوں والا اور کوڑھیوں کو چنگا کرتے تھے۔ اور مردوں کو جلا دیتے تھے۔“ (ج ٢ ص ٢٤٤) مگر خود سید صاحب جب انہیں یہودیوں اور عیسائیوں کی کتابوں کی طرف جھکتے ہیں تو ایسے کہ مفسر ہی بن جاتے ہیں چنانچہ تبیین الکلام میں آپ نے توریت اور انجیل کی تفسیر جیسی کی ہے کوئی معتقد بھی ایسی نہ کرے بڑے زور دار دلائل سے ان کی حقیقت پر بحث کی ہے اور پر زور براہین سے اس کے ہر ایک مضمون کو مبرہن کیا ہے۔ خیر اس شکایت کا تو یہ موقع نہیں مطلب کی بات صرف اتنی ہے کہ سید صاحب نے اِذْتُخْرِجُ المَوْتٰی بِاِذْنِی میں موتیٰ کے لفظ سے کفار مراد لئے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں :۔ ” انسان کی روحانی موت اس کا کافر ہونا ہے۔ حضرت عیسیٰ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت تعلیم کرنے اور اللہ تعالیٰ کے احکام بتانے سے لوگوں کو اس موت سے زندہ کرتے تھے اور کفر کی موت کے پنجے سے نکالتے تھے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِذْتُخْرِجُ المَوْتٰی بِاِذْنِی - اس دعوے پر آیت ذیل سے استدلال کیا ہے :۔ ” اِنَّکَ لاَ تُسْمِعُ المَوْتٰی وَمَا یَسْتَوِیْ الاَحْیَآئُ وَلا الاَمْوَاتُ اِنَّ اللّٰہَ یَسْمِعُ مَنْ یَّشَآئُ وَمَآ اَنْتَ بِمَسْمِعٍ مَّنْ فِیْ القُبُوْرِ۔“ (ج ٢ ص ٢٤٧) مطلب یہ ہے کہ ان آیتوں میں جیسا موتیٰ اور اموات سے مراد کفار ہیں اسی طرح اِذْتُخْرِجُ المَوْتٰی بِاِذْنِی میں کفار مراد ہیں۔ افسوس سید صاحب زندہ ہوتے تو ہم بڑے ادب سے ان سے دریافت کرتے کہ اگر واقعی یہی مضمون ادا کرنا ہوتا کہ بے جان مردوں کو زندہ کرتا تھا۔ تو کس عبارت اور کن لفظوں میں ادا کیا جاتا۔ سید صاحب کا کوئی مرید ہمیں وہ عبارت بتلاوے تو ہم ان کے مشکور ہوں۔ سید صاحب کو اس سے تو کوئی مطلب ہی نہیں کہ حقیقت کیا ہوتی ہے اور مجاز کیا۔ اگر کہیں شیر کے معنے قرینہ سے بہادر کئے جائیں تو بلا قرینہ بھی سید صاحب جہاں مطلب ہو وہی معنے لینے کو وہی موقع پیش کردیتے ہیں۔ سچ ہے کالے گورے پہ کچھ نہیں موقوف دل کے لگنے کا ڈھنگ اور ہی ہے حالانکہ خود ہی اپنی تصنیفات میں اس امر کا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ :۔ ” ہم مسلمانوں کے ہاں قاعدہ ہے کہ ہمیشہ جہاں تک ہوسکتا ہے لفظ سے اس کے اصلی اور حقیقی معنے مراد لیتے ہیں۔“ (تصانیف۔ احمدیہ ج ١ ص ٣١٨) علاوہ اس کے یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اگر یہ یہی مینئ ہوں جیسا کہ سید صاحب کی رائے ہے کہ :۔ اِذْتُخْرِجُ المَوْتٰی بِاِذْنِی یعنی واذتخرج الکافر من کفرہ باذنی (ص ٢٤٨) تو اس کا موقع ہی کیا کہ تو اس وقت کو یاد کر جب تو کافروں کو ہدایت کرتا تھا جب وہ نبی تھے اور الوالعزم نبی تھے تو پھر یہ تو ان کا نصب ہی تھا کہ کافروں کو ہدایت کریں اس سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو یہ کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) اپنے منصب اور عہدے کو خوب نباہتے تھے یہ تو ان کی لیاقت کی بات مستوجب انعام ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا انعام اور احسان۔ یوں کہنے کو تو سب کچھ اللہ ہی کا ہے اور یہ بالکل ٹھکس اور درست ہے کہ منت منہ کہ خدمت سلطاں ہمیکنی منت ازد بداں کہ بخدمت گذاشتت مگر سیاق کلام تو ایسے احسانات سے متعلق نہیں بلکہ ایسے احسان سے متعلق ہے جو اللہ تعالیٰ نے صریح طور سے مسیح پر کیے تھے جنہیں دیکھ کر دوست دشمن بھی تسلیم کرے کہ واقعی ایک بات قابل ذکر ہے۔ یہاں پر پہنچنے سے ہمیں ایک اور بات یاد آئی کہا گر سید صاحب کے معنے صحیح ہوں تو اسی سورۃ مائدہ میں وَاِذْ اَوْحَیْتُ اِلَی الحَوَارِیِّیْنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَبِرَسُوْلِیْ الاٰیۃ کی کیا حاجت تھی کیونکہ یہ بھی بقول سید صاحب اِذْتُخْرِجُ المَوْتٰی بِاِذْنِی ای تخرج الکافر من کفرہ باذنی کی قسم ہے بلکہ بعینہٖ وہی ہے پھر اس کو الگ کر کے بیان کرنا جب تک کوئی نیا مطلب نہ ہو۔ التاسیس اولی من التاکید کے صریح خلاف ہے۔ پس جب تک سید صاحب یا ان کے حواری اس مقام پر موتٰی سے کفار مراد لینے کا قرینہ نہ بتلا دیں گے ہم بھی جواب میں مشغول نہ ہوں گے اس سے بڑھ کر ان لوگوں سے تعجب ہے۔ جو حقیقت میں تو سید صاحب سے ہی استفاضہ کا روحانی تعلق رکھیں مگر اس مسئلہ میں ان سے بھی ایک درجہ آگے بڑھے ہوئے ہیں ان کا قول ہے کہ ایسے معجزات کا مسیح سے ظہور ماننا سرا سر شرک ہے جس کے رد کرنے کو تمام قرآن شریف بھرا پڑا ہے مگر ان حضرات کو شرک سے ایسی نفرت ہے جیسی کہ پنڈت دیانند بانی فرقہ آریہ کو ہے جو لا الہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ کا جوڑ بھی شرک سمجھتے ہیں بھلا شرک کیونکر ہوا۔ اسی شرک کے ازالہ وھم کرنے کو تو اللہ تعالیٰ علام الغیوب نے بِاِذْنِ اللّٰہِ اور بِاِذْنِی کی ہر جگہ قید لگائی ہے۔ زیادہ تعجب تو اس لئے ہے کہ یہ قول ان لوگوں کا ہے جو معجزہ شق القمر وغیرہ کا وقوع بھی مانتے ہیں بھلا اگر یہ خلاف عادت پرندوں کا بنانا اور اللہ کے حکم سے اڑا دینا اور مردوں کا اللہ کے حکم سے زندہ کرنا مسیح کی نسبت خیال کرنا شرک ہے۔ تو شق القمر اور دوسرے اسی قسم کے معجزات کو تسلیم کرنا کیا کم شرک ہے۔ حضرات مَا کَانَ ! لِرَسُوْلٍ اَنْ یَاْتِیَ بِاٰیَۃٍ الاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ کو غور سے پڑھو۔ سید صاحب نے جیسا ان معجزات (احیاء اموات وغیرہ) سے انکار کیا ہے ویسا ہی بیماروں کے اچھا کرنے وغیرہ سے بھی منکر ہوئے چنانچہ فرماتے ہیں :۔ ” اندھے لنگڑے اور چوڑی ناک والے کو یا اس شخص کو جس میں کوئی عضو زائد ہو۔ اور ہاتھ پائوں ٹوٹے ہوئے کو اور کبڑے اور ٹھنگنے اور آنکھ میں پھلی والے کو معبد میں جانے اور معمولی طور پر قربانیاں کرنے کی اجازت نہ تھی۔ یہ سب ناپاک اور گنہگار سمجھے جاتے تھے اور عبادت کے لائق یا اللہ تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہونے کے لائق متصور نہ ہوتے تھے۔ حضرت عیسیٰ نے یہ تمام قیدیں توڑ دی تھیں اور تمام لوگوں کو کوڑھی ہوں یا اندھے یا لنگڑے۔ چوڑی ناک کے ہوں یا پتلی ناک کے۔ کبڑے ہوں یا سیدھے ٹھنگنے ہوں یا لنبے پھلی والے ہوں یا جالے والے سب کو اللہ تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہونے کی منادی کی تھی کسی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم نہیں کیا۔ اور کسی کو عبادت کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ سے نہیں روکا۔ پس یہی ان کا کوڑھیوں اور اندھوں کو اچھا کرنا تھا یا ان کو ناپاکی سے بری کرنا۔ جہاں جہاں بیماروں کا انجیلوں میں اچھا کرنے کا ذکر ہے اس سے یہی مراد ہے اور قرآن مجید میں جو یہ آیتیں ہیں ان کے بھی یہی معنے ہیں۔“ (صفحہ ٢٤٦) معہ ہذا یہ بھی اقرار ہے کہ :۔ ” ہاں اس بات سے انکار نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں ایک ایسی قوت رکھی ہے جو دوسرے انسان میں اور دوسرے انسان کے خیال میں اثر کرتی ہے اور اس سے دوسرے امور ظاہر ہوتے ہیں جو نہایت عجیب معلوم ہوتے ہیں اور جن میں سے بعض کی علت ہم جانتے ہیں اور بہت سوں کی علت نہیں جانتے بلکہ اس کے عامل بھی اس کی علت نہیں جانتے اسی قوت پر اس زمانہ میں ان علوم کی بنیاد قائم ہوئی جو مز مریزم اور اسپریچرم ایلزم کے نام سے مشہور ہیں اور سابقین بھی اس کے عامل تھے مگر اس علم سے ناواقف تھے یا اس کو مخفی رکھتے تھے مگر چونکہ وہ ایک قوت ہے قوائے انسانی میں سے اور ہر ایک انسان میں بالقوہ موجود ہے۔ جیسی قوت کتابت تو اس کا کسی انسان سے ظاہر ہونا معجزہ میں داخل نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ تو فطرت انسانی میں سے انسان کی فطرت ہے۔ فافھم و تدبر“ (ج ٢ ص ٢٤٦) عجب نہیں کہ فافہم وتدبر میں سید صاحب نے حسب مذاق اہل معقول خود ہی جواب کی طرف اشارہ کیا ہو۔ وہ یہ کہ ان علوم کے ماہر سلب امراض وغیرہ بڑی محنت اور سالہا سال کی مشقت سے حاصل کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کبھی عمل ہوتا ہے اور کبھی تخلف مثل علاج اطباء جو کتابی قانون سے علاج کرتے ہیں۔ جس میں کوئی قومی یا ملکی خصوصیت نہیں بلکہ ہر ایک شخص خواہ کسی ملک یا قوم کا ہو بپا بندی ان قواعد کے جو ان علوم میں مذکور ہیں عمل سیکھ کر اثر کرسکتا ہے مگر معجزہ یا کرامت جو بظاہر نبی یا ولی کا فعل ہوتا ہے بحکم اللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ ضرور مخصوص بالنبی یا بالولی ہوتا ہے یہ ٹھیک ہے کہ کسی قانون کے ذیل میں ضرور ہوتا ہے۔ مگر وہ قانون ایسا مجہول الکیفیت ہے کہ اس کی کنہہ بندوں کی سمجھ سے بالا ہے جیسی کہ رسالت کی ماہیت اور وہ قانون جس پر رسالت مبنی ہے بندوں کے ادراک سے وراء الورا ہے یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات معجزے کے فعل کو اللہ تعالیٰ خاص اپنی ذات کی طرف نسبت کرتا ہے۔ غور سے سنو ! مَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی۔ تو نے نہیں چلائی مگر اللہ نے چلائی۔۔ اِذْ تُخْرِجُ المَوْتٰی بِاِذْنِی۔ جب تو میرے حکم سے مردوں کو نکالتا تھا۔ ۔ سَنُعِیْدُھَا سِیْرَتَھَا الاُوْلٰی ہم اس کی پہلی کیفیت پھر لاویں گے۔ وَغَیْر ذلک پس معجزہ اور مسمریزم میں فرق بَیَّن ہوگیا کہ معجزہ کے کرنے والا دراصل خود اللہ تعالیٰ ہے اور وہ کسی ظاہری تعلیم کا اثر نہیں ہوتا۔ بخلاف مسمریزم کے کہ وہ مثل دیگر افعال بندوں کے بندوں کا فعل ہے جو دوسرے کاموں کی طرح ظاہری تعلیم کا اثر ہوتا ہے جس کے کرنے پر دوسرے لوگ بھی ویسے ہی قدرت رکھتے ہیں جیسی کہ مسمرائزر (عمل مسمریزم کرنے والا) گو بظاہر ظاہر بینوں کی نظر میں ان دونوں کے آثار یکساں ہوں لیکن ان کی یکسانگی بعینہٖ پیتل اور سونے کی یک رنگی کے مشابہ ہے جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی کام کے لئے مختلف علل ہوں لیکن بنظر ان علتوں کے وہ مختلف کہلاتے ہیں مثلاً کسی مسافت کا طے کرلینا اس کی علت سواری اور سواری بھی مختلف (ریل گاڑی۔ گھوڑا گاڑی وغیرہ) اور پاپیادہ چلنا وغیرہ وغیرہ ہیں۔ حالانکہ معلول (قطع) مسافت ایک ہی ہے اسی طرح ایک ہی معلول مثلاً (سلب امراض) ہے جس کے لئے نبی یا ولی کا فعل جس کو معجزہ یا کرامت کہتے ہیں) اور مسمرایزر کا عمل دونوں بظاہر علت ہوسکتے ہیں مگر اپنی اپنی ماہتی اور حقیقت میں مختلف ہیں جیسے ریل‘ گھوڑا گاڑی وغیرہ باہمی مختلف ہیں۔ ہاں اس امر کی تمیز ظاہر بینوں کی نظر میں کسی قدر مشکل ہے کہ یہ فعل معجزہ ہے یا مسمریزم کا عمل۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض دفعہ تو دونوں نبی اور مسمرایزر کے طریق عمل سے ہی نمایاں ہوجاتا ہے کیونکہ مسمرایزر اکثر اوقات پاس (جس کو ہندی میں جھاڑنا کہتے ہیں) کے ذریعہ سے علاج کرتا ہے۔ چنانچہ زندہ کرامات صفحہ ١٢ میں اقسام پاس کو مفصل لکھا ہے مگر نبی ان میں سے کوئی ایسا فعل نہیں کرتا۔ جو ظاہری طور پر مؤثر ہونے کا احتمال رکھے وہ اکثر دفعہ صرف دعا کرتا ہے اور بعض دفعہ بغیر اس کے کسی فعل اختیاری کے وہ فعل (معجزہ) صادر ہوجاتا ہے۔ غور سے سنو ! فَاَلْقَاھَا فَاِذَا ھِیَ حَیَّۃٌ تَسْعٰی قَالَ خُذْھَا وَلاَ تَخَفْ سَنُعِیْدُھَا سِیْرَتَھَا الاُوْلٰی وَاضْمُمْ یَدَکَ اِلٰی جَنَاحِکَ تَخْرُجُ بَیْضَآئَ مِنْ غَیْرِ سُوٓئٍ اٰیَۃً اُخْرٰی (سورۃ طٰہٰ پ ١٦) اور بعض دفعہ ان دونوں (معجزہ اور مسمریزم) کی تمیز ان افعال سے ہوسکتی ہے جہاں ایک سے دوسرا جدا ہو یعنی معجزہ کا اثر تو ہو مگر مسمریزم کا اثر نہ ہو۔ جیسے احیاء اموات (مردوں کو زندہ کرنا) یا چاند کا دو ٹکڑے کردینا وغیرہ یہ کسی مسمرایزر کا کام نہیں ہے۔ مسمرایزر صرف یہ کرسکتا ہے کہ کسی انسان کو بے ہوش کر کے جس میں جان ہو پھر ذی ہوش کر دے یا کسی محاط مکان میں نظر بندی سے داخل مکان لوگوں کے لئے کسی چیز کو ایک سے دو کر دکھاوے مگر حقیقتاً کسی مردہ کا زندہ کرنا یا محاط مکان سے باہر والوں کو ویسا ہی نظر آنا جیسا کہ داخل مکان والوں کو نظر آیا تھا یہ نہیں ہوسکے گا کیونکہ اس کے اثر سے حقیقت شئے کی نہیں بدل سکتی۔ پس بعض علمائ! مسمریزم کا اس کی تعریف میں بڑھ کر یہ کہنا کہ یہی مذہب کا ستون اور مذہب ایجاد کرنے والوں کی اصل طاقت تھی“ (زندہ کرامات ص ٢٢) کسی طرح صحیح نہیں۔ بلکہ معجزہ کی ماہیت سے عدم واقفیت پر مبنی ہے۔ سخن شناس نئی دلبر اخطا اینجاست“ اس سے بڑھ کر ان قائلین کا قول غلط بلکہ کفر ہے کہ :۔ ” حضرت مسیح (علیہ السلام) کے معجزات مسمریزم کا اثر تھے۔ اگر میں اس کو کراہت سے نہ دیکھتا تو ابن مریم سے کم نہ رہتا۔“ (ازالہ اوھام صفحہ ٣٠٣) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسی سورۃ مائدہ کے معجزات کے بعد کفار کا یہ قول بیان کیا ہے کہ کافروں نے حضرت مسیح کے قول کو جادو یعنی مسمریزم کہا ہے۔ فَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ اِنْ ھٰذَا الاَّ سِحْرٌ مُّبِیْنٌ (المائدہ ع ١٥) سحر سے مراد ہم نے مسمریزم لاٰ ہے کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلوں نے بھی مسمریزم ہی کیا تھا جن کو اللہ تعالیٰ نے جادوگر کہا ہے غور سے پڑھو فَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سُجَّداً کیونکہ ان کا جادو جو قرآن میں بیان ہوا ہے یہی ہے فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَعِصِیَّتُہُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی جو بالکل مسمریزم کا اثر ہے پس ان دونوں آیتوں سے نتیجہ نکلتا ہے کہ علم مسمریزم بھی جادو کی قسم سے ہے اور حضرت مسیح کے معجزات کو جادو یا مسمریزم کہنا کافروں کا کام ہے چونکہ سید صاحب نے انجیل کا ذکر بھی کیا ہے اس لئے ہم ایک دو مقام انجیل کے نقل کر کے بغیر کسی شرح اور تفسیر کے ناظرین کی سمجھ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ انجیل متی میں (جسے سید صاحب بھی سب انجیلوں میں سے زیادہ معتبر مانتے ہیں بلکہ اس کے مفسر ہیں) مذکور ہے :۔ ” ایک کوڑھی نے آ کے اسے (مسیح کو) سجدہ کیا اور کہا اے اللہ تعالیٰ اگر تو چاہے تو مجھے صاف کرسکتا ہے یسوع نے ہاتھ بڑھا کر اسے چھوا اور کہا میں چاہتا ہوں کہ تو صاف ہو اور وہیں اس کا کوڑھ جاتا رہا۔“ (متّٰی ٨ باب ٣) ” اور جب وہ گھر میں پہنچا اندھے اس کے پاس آئے اور یسوع نے انہیں کہا۔ کیا تمہیں اعتقاد ہے کہ میں یہ کرسکتا ہوں وہ بولے ہاں اے اللہ تعالیٰ تب اس نے ان کی آنکھوں کو چھوا اور کہا تمہارے اعتقاد کے موافق تمہارے لئے ہو اور ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ (متّٰی ٩ باب ٢٨ آیت) کیا یہ واقعی ازالہ مرض ہے یا شرعی برأت (جیسے سید صاحب کا خیال ہے) اسی قسم کے کئی ایک معجزات ہیں جو انجیلوں میں مصرّح ملتے ہیں۔ رہا عیسائیوں کا خیال کہ حضرت مسیح اپنے اختیار سے کرتے تھے اس لئے وہ الوہیت کے درجہ پر تھے اس کا مفصل جواب جلد ثانی حاشیہ نمبر ٥ میں ہوچکا ہے۔ ١٢ منہ حضرت موسیٰ نے اپنا عصا ڈالا تو وہ سانپ بن کر بھاگنے لگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس کو پکڑ لے اور خوف نہ کر ہم اس کی پہلی حالت (لکڑی کی) پھیر دیں گے اور اپنے ہاتھ کو گریبان میں ڈال وہ بغیر بیماری کے سفید براق جیسا ہو کر نکلے گا۔ یہ دوسری نشانی ہے۔ منہ)