سورة المآئدہ - آیت 1

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۗ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اے ایمان والو(1) (اللہ سے کئے گئے) اپنے اقراروں کو پورا کرو، تمہارے لئے مویشی چوپایوں (2) کو حلال کردیا گیا ہے، ان کے علاوہ جو تمہیں بتا دئیے جائیں گے (3) لیکن جب تم حالت احرام میں ہو تو شکار کے جانوروں کو اپنے لئے حلال نہ بناؤ، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔5) مسلمانو ! ایمان لا کر جن احکام خداوندی کو تم اپنے ذمہ لے چکے ان احکام الٰہی کی تعمیل کرتے رہو وہ کئی قسم ہیں۔ کئی ایک اوامر کسی کے فعل کے کرنے کے متعلق ہیں اور کئی ایک نواہی کسی کام سے روک ہیں۔ بعض مباح بھی ہیں۔ (شان نزول : تعلقات خالق و مخلوق کو باحسن وجوہ پورا کرنے کی تعلیم کی بابت یہ آیت نازل ہوئی۔ ١٢ منہ ) سنو ! چارپائے مویشی باستثناء ان کے جو اسی سورت میں تم کو بتائے جاتے ہیں تم کو حلال ہیں۔ بشرطیکہ احرام کی حالت میں تم نہ ہو۔ بعض کی اجازت اور بعض کی ممانعت کرنے میں تم متردد نہ ہوئو۔ اس میں بڑی بڑی حکمتیں ہیں اگر ان حکمتوں کو نہ پا سکو تو یہی سمجھو کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے حکم دیتا ہے اس پر کسی کا زور یا ناراضگی کا حق نہیں۔ پس تم مسلمانو !! اللہ کے دستورات مقررہ کو نہ توڑو اور نہ ہی ماہ حرام کی بے حرمتی کرو ( لا تحلوا شعآئر اللہ۔ ایک شخص شریح بن ضبیعہ نامی مدینہ طیبہ میں آ کر دھوکہ سے مسلمانوں کو نقصان پہنچا کر چلا گیا۔ حج کے دنوں میں یمامہ کے ایک قبیلہ کے ہمراہ بصورت حاجی بہ نیت تجارت بہت سا مال لے کر مکہ معظمہ کی طرف آرہا تھا۔ صحابہ نے اپنا عوض لینے کو اس کے پکڑنے کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت چاہی۔ آپ نے منع فرمایا صحابہ کی مکرر درخواست کرنے پر یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم۔ اسلام پر بے جا لوٹ گھسوٹ کا الزام لگانے والو کہاں ہو؟ شوم !!!) اور نہ لوگوں کی قربانیاں جو دور دور سے اللہ تعالیٰ کی نذر مان کر بہ نیت ثواب خانہ کعبہ میں لاتے ہیں لوٹا کرو اور نہ سیلی پہنے ہوئے جانور جو بہ نیت نذر گذارنے کے لوگ لاتے ہیں راہ میں پکڑا کرو اور نہ بیت المعظم کعبہ شریف میں آنے والے لوگوں کو بے حرمت کیا کرو۔ دیکھو تمہیں ان کے ستانے اور بے عزت کرنے میں شرم آنی چاہئے۔ گو وہ اسلام کے قائل نہیں۔ تاہم اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی مرضی چاہنے کو دور دراز ملکوں سے سفر کر کے آتے ہیں اور تم ان کو بے حرمت کرو اور لوٹو؟ (مسلمان مسلمانوں کو تو نہ لوٹتے تھے نہ ان کو روکتے تھے اس آیت میں امین البیت سے وہ لوگ مراد ہیں جو اطراف مکہ سے غیر مسلم لوگ آیا کرتے تھے۔ منہ) اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ یہ تو انسان ہیں۔ حیوانوں کے شکار سے بھی جب تک تم محرم ہو‘ بچتے رہو۔ ہاں جب احرام سے فارغ ہوجائو تو شکار کی اجازت ہے۔ مزے سے کرو۔ خبردار، کسی قوم کی عداوت سے کہ انہوں نے کسی زمانہ میں تم کو کعبہ شریف میں آنے سے روکا تھا اب موقع پا کر بے اعتدالی اور ظلم زیادتی پر کمربستہ نہ ہوئو ایسا نہ ہو۔ کہ انتقام کے خیال میں کسی کو جوش آوے تو دوسرا بجائے جوش مٹانے کے اس کو بھڑکاوے۔ خبردار ! ایسی بے جا حرکتوں میں ایک دوسرے کا ساتھ نہ دیا کرو اور نیکی اور تقویٰ کے کام میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم پر حمایت نہ کیا کرو۔ اللہ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑے سخت عذاب والا ہے۔ وہ جانور جن کی حرمت کا ذکر شروع میں تم کو سنایا تھا۔ غور سے سنو ! خود مردہ ! جانور جو بوجہ حبس دم کے مضر ہوتا ہے اور ذبح کے وقت کا خون جو بدن انسان کو ضرر رساں ہے اور خنزیر کا گوشت جو اخلاق انسانی میں مضر ہے۔ اور جو چیز غیر اللہ کے نام پر بغرض تقرب غیر کے پکاری جائے کیونکہ یہی بناء شرک ہے اور گلاگھٹ کر یا لکڑی پتھر وغیرہ کی چوٹ سے یا گر کر یا کسی زبردست کے سینگ لگنے سے مرا ہو۔ اور جس کو درندہ جانور کھا جائے سب حرام ہیں مگر جس کو درندے سے چھڑا کر بحالت زندگی تم ذبح کر ڈالو وہ حلال ہے اور جو بتوں اور قبروں وغیرہ ناجائز موقعوں پر ذبح کیا جائے۔ وہ بھی حرام ہے اور یہ جو تم تیروں وغیرہ آلات رمل سے قسمت آزمائی کرتے ہو۔ یہ بھی حرام ہے۔ بلکہ یہ سخت گناہ کا کام ہے کیونکہ ایک تو جھوٹ ہے۔ دوم دھوکہ دہی۔ (شان نزول ! حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ الْمَیْتَۃُ۔ شرک۔ بت پرستی۔ پیر پرستی۔ وغیرہ کی جڑ کاٹنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) مسلمانو ! آج کفار تمہارے دین کے مٹنے سے مایوس ہوگئے ہیں اور جو خیالی پلائو جی میں اسلام کی بربادی کے پکایا کرتے تھے وہ سب بھول گئے۔ پس اب تم اجرائے دین میں ان کا ذرہ بھر خوف نہ کرو۔ ان کے چھکے چھوٹ چکے ہیں وہ تمہارا مقابلہ نہ کریں گے ان کی پرواہ بھی نہ کرو اور مجھ (خدا) سے ڈرو آج میں نے بذریعہ قرآن اور رسول تمہارا دین بلحاظ اصول شرائع کامل کردیا ہے اور تم پر اپنی نعمت بذریعہ فتوحات اور اظہار اسلام پوری کی ہے اور میں نے اسلام کو ہاں اصل اسلام ٹھیٹھ اسلام جس میں سوائے قرآنی اور حدیثی تعلیم کے کسی قوم یا ملک کی رسوم کو دخل نہیں بس یہی اسلام تمہارا مذہب پسند کیا ہے۔ پس تم احکام شرعیہ کی تعمیل کرو جو حلال ہے اس کو حلال سمجھو اور جو حرام ہے اس کو حرام جانو۔ (شان نزول اَلْیَوْمَ اکْمَلْتُ لَکُمْ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آخری حج یعنی حجۃ الوداع میں بطریق آخری پیغام کے یہ آیت نازل ہوئی منہ) جو شخص بغیر رغبت گناہ کے بھوک سے تنگ ہو اور حلال کھانا اس کو میسر نہ آتا ہو تو محرمات مذکورہ میں سے بقدر سدرمق کچھ جس سے اس کی جان بچ جائے کھا لے اور اللہ تعالیٰ کی بخشش کی امید رکھے اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ شاباش ہے ان مسلمانوں پر جو سنتے ہی ایسے تابع ہوئے ہیں کہ کوئی کام بلا اجازت کرنا نہیں چاہتے۔ گو عام مفہوم سے مستنبط بھی ہوسکتا ہے۔ دیکھو تو بغرض دریافت تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا کیا چیزیں ان کو حلال ہیں یعنی کن کن چیزوں کے کھانے کی ان کو اجازت ہے شان نزول (یَسْئَلُوْنَکَ) ایک شخص عدی بن حاتم نامی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ہم کتوں کے ساتھ شکار کیا کرتے ہیں اس میں ہمیں کیا ارشاد ہے اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ١٢ (معالم) تو اے نبی ان سے کہہ کہ محرمات کو چھوڑ کر سب کچھ پاک ہے پس تم پاکیزہ چیزیں اور پاکیزہ جانور جن پر شرع نے حرمت کا حکم نہیں دیا۔ سب حلال ہیں بلا کھٹکا کھائو اور جو شکاری درندے تم نے شکار کرنے کو سدھائے ہوں جن کو تم شکار کی تعلیم دیتے ہو۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر تم کو تعلیم دی ہے۔ ان کا کیا ہوا شکار جو وہ تمہارے واسطے محفوظ رکھیں وہ تم کھالیا کرو اور زندہ ہو تو ذبح کرتے ہوئے اور کھاتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر اللہ کا نام اس پر ذکر کیا کرو۔ اور بے فرمانی کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ جان رکھو کہ اللہ کے مواخذہ میں دیر نہیں بہت جلد حساب لینے والا ہے اور سنو ! اب کل مباح چیزیں تم کو حلال ہیں اور کتاب والوں کا پکا ہوا کھانا بھی بشرطیکہ تمہاری شریعت میں حرام نہ ہو۔ تم کو حلال ہے۔ ہندوئوں کی طرح اسلام میں چھوت نہیں کہ غیر قوم کے ہاتھ لگنے سے ناپاک ہوجائے ہاں اگر وہ حسب عادت کوئی حرام چیز کھائیں پکائیں تو وہ نہ کھائو جیسا تم کو ان کا پکا ہوا کھانا حلال ہے تمہارا پکا ہوا کھانا ان کو حلال ہے۔ کھانے پینے کے کیا معنے بھلی مانس عورتیں جیسی مسلمانوں میں سے تم کو نکاح میں لانی جائز ہیں ایسی ہی تم سے پہلی کتاب والوں یہود و نصاریٰ کی بھلی مانس عورتیں تم کو نکاح میں لانی حلال ہیں۔ بشرطیکہ تم بھی بھلے مانس بنکر گھر باری بننے کی نیت سے ان کے مہر ادا کر دو نہ صرف چند روزہ شہوت رانی کی غرض سے اور نہ مخفی آشنائی کرنے کو رکھو اور سنو ! یہود و نصاریٰ کی عورتوں کی محبت میں پھنس کر بے ایمان نہ ہوجانا۔ سن رکھو جو کوئی ایمان کی باتوں سے منکر ہوگا اس کے تمام نیک عمل برباد ہوجائیں گے اور وہ آخرت میں ٹوٹا پانے والوں کی جماعت سے ہوگا۔