لَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا
اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند (140) نہیں ہے کہ کوئی شخص برائی بآواز بلند بیان کرے، سوائے اس آدمی کے جس پر زیادتی ہوئی ہو، اور اللہ بڑا سننے والا اور بڑا جاننے والا ہے
(148۔162)۔ چونکہ اللہ ہر چیز کو جانتا ہے اس لئے اس نے ان منافقوں کی عادات قبیحہ کا اظہار کیا اور آئندہ بھی کرتا رہے گا اس سے مت سمجھو کہ تم بھی ایک دوسرے کے عیب علانیہ بیان کرتے پھرو یہ تمہیں ہرگز جائز نہیں کیونکہ کسی کے حق میں بری بات کا اظہار کرنا اللہ کو پسند نہیں ہاں جس پر ظلم ہوا ہو وہ اگر اس ظلم کا اظہار کسی سے کرے یا ظالم کے حق میں بد دعا کرے تو جائز ہے باوجود اس کے وہ بھی اگر آہستہ آہستہ صرف اللہ کے سامنے اس ظلم کا اظہار کرے تو بہتر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو سب کچھ آہستہ ہو یا خفیہ سنتا اور ہر ایک کا حال جانتا ہے جب ہی تو تیں مج کہتا ہے کہ اگر تم بجائے شکائت ظاہری کے اس ظالم سے ظاہر طور پر یا چھپ کر نیکی کرو اور سلوک سے پیش آئو یا اگر اتنا بڑھ کر تمہارا حوصلہ نہیں کہ ظالم سے بجائے بدلہ لینے کے نیک سلوک کرو اس کی برائی معاف کردو اللہ بھی تمہارے گناہ معاف کردے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ بڑا معاف کرنے والا بڑی قدرت والا ہے مگر بایں ہمہ جو لوگ اللہ کی توحید سے اور اس کے رسول سے منکر ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے ماننے میں فرق کریں بعض کو مانیں بعض سے انکاری ہوں نہ صرف یہی کہ یہ کفر مخفی رکھتے ہیں بلکہ زبان سے بھی کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض سے انکاری ہیں جیسے یہودی اور عیسائی اور چاہتے ہیں کہ اس کے بیچ بیچ ایک راہ نکالیں ان لوگوں کو سخت ذلت پہنچے گی یہی لوگ پکے کافر ہیں گو یہ اپنے آپ کو اہل کتاب اور مومن کہیں اور انہی کافروں کے لئے ہم نے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے اور جو لوگ اللہ کی توحید اور اسکے سب رسولوں کو مانتے ہیں اور ان میں سے کسی رسول کے ماننے میں تفرقہ نہیں کرتے کہ بعض کو مانیں اور بعض کو نہ مانیں عنقریب اللہ قیامت کے دن ان کے کاموں کے اجر ان کو دے گا اور ان کے سب گناہ معاف کردے گا اس لئے کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے ہر طرح کے لوگوں پر احسان کرتا ہے دنیاوی حاجتوں کے علاوہ دینی حاجات کے لئے نبی اور رسول بھیجتا ہے بالآخر سب لوگوں کی ہدائت کے لئے تجھے (اے محمد ﷺ) رسول کرکے بھیجا اور طرح طرح کے معجزات دیے اور آئندہ بھی دے گا ہاں جو سوال انکا خلاف مصلحت اور مخالف حکمت ہوگا وہ ہرگز پورا نہ ہوگا چنانچہ یہ بات جو تجھ سے اہل کتاب (یہودی) سوال کرتے ہیں کہ ان کے سامنے آسمان سے ساری کتاب دفعۃً اتار دے مصلحت کے خلاف ہے (شان نزول :۔ (یسئلک اھل الکتب) بعض یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو اپنی کتاب کو ایک ہی دفعہ اتار لائیں ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) اول تو سامنے کسی کے کوئی کتاب اتری نہیں ایسا اگر ہو تو ایمان بالغیب پھر کیا دوم چونکہ قرآن شریف کے مخالف بہت قسم کے لوگ ہیں ایک تو صریح اور کھلے طور پر مخالفت کرتے ہیں ایک خفیہ درپے مخالفت ہیں جیسے منافق ان کی بے ایمانیوں اور شرارتوں سے پیغمبر کو اطلاع دینی ضروری ہے جو قرآن کے ذریعہ سے وقتاً فوقتاً دی جاتی ہے پس ان اہل کتاب کا یہ سوال مصلحت کے خلاف ہے مگر تم لوگ ان کے اس سوال سے تعجب نہ کرو اس لئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے انہوں نے اس سے بھی بڑھ کر سوال کیا تھا کہنے لگے کہ اے موسیٰ ( علیہ السلام) اللہ ہم کو کھلم کھلا سامنے دکھا بھلا بتائو یہ سوال بھی کوئی دانائی کا ہے کبھی کسی نے اللہ کو دنیا میں سامنے دیکھا بھی ہے اور ممکن بھی ہے کہ کوئی بشر اس کو دیکھ سکے ؟ ہمیشہ اس کی قدرت سے اس کا ثبوت ملتا ہے پس چونکہ ان کا یہ سوال بہت بے جا اور قواعد الہیہ کے خلاف تھا لہٰذا ان کے اس ظلم اور سخت غلطی کی وجہ سے ان پر بجلی گری جس سے وہ مر گئے پھر ہم نے ان کو زندہ کیا تاکہ وہ احسان مانیں پھر اس بے جا سوال پر ہی انہوں نے بس نہیں کی بلکہ کھلی کھلی نشانیاں آنے کے بعد بھی انہوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا اور اس بے جان کو پوجنے لگ گئے پھر ہم نے یہ بھی معاف کردیا اور ان کے سردار اور پیغمبر موسیٰ ( علیہ السلام) کو دشمنوں پر ظاہر غلبہ دیا اور ان کی سر کشیوں کے سبب ہم نے ان (بنی اسرائیل) پر وعدہ لینے کیلئے کوہ طور کے ایک حصے کو ان پر کھڑا کردیا اور ان کو شکر سکھانے کے لئے ہم نے ان سے کہا اس مفتوحہ بستی کے دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوئو اور یہ بھی ہم نے ان سے کہا کہ ہفتے میں زیادتی نہ کرو یعنی ہفتہ کے روز کی مقررہ عبادت کے ادا کرنے میں سستی اور برے کاموں میں چستی نہ کرو اور اس پر ہم نے ان سے بڑا مضبوط وعدہ لیا تھا مگر انہوں نے ایک کو بھی ملحوظ نہ رکھا پھر جو کچھ ان سے معاملہ ہوا سو کچھ تو ان کی بدعہدیوں کی وجہ سے اور کچھ آیات خداوندی کے انکار کی وجہ سے اور کچھ انبیاء کو ناحق قتل کرنے کی وجہ سے اور کچھ اس پیغمبر کے سامنے ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم تیری بات نہیں سنتے اس لئے کہ ہمارے دل بری اور غلط باتوں کی رسائی سے محفوظ ہیں حالانکہ یہ بات نہیں ہے بلکہ اللہ نے ان کے کفر اور بے ایمانی کی وجہ سے ان پر مہر کردی ہے پس اسی لئے نصیحت کو بہت کم مانتے ہیں اور بالآخر بقیہ بلا ان کے آخری کفر اور مریم صدیقہ پر بہتان عظیم باندھنے کی وجہ سے اور مسیح کی نسبت اس بیہودہ اور غلط گوئی کی وجہ سے تھا کہ بے شک ہم نے عیسیٰ مسیح ابن مریم اللہ کے رسول قتل کرڈالا حالانکہ نہ تو انہوں نے اس کو مارا اور نہ سولی دیا۔ ہاں ان کو ایک قسم کا اشتباہ بے شک ہوا جس سے خیال کر بیٹھے کہ ہم نے اس کو مارڈالا اصل بات یہی ہے جو ہم نے بتلائی ہے اور جو لوگ اس میں ہمارے بتلائے ہوئے سے مخالف ہیں سخت غلطی میں ہیں واقعی طور پر ان کو علم نہیں ہاں اپنے خیال کی پیروی میں ہیں اصل بات تحقیقی ہم بتلاچکے ہیں کہ انہوں نے ہرگز اس کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف زندہ اٹھالیا گو کسی آدمی کا زندہ آسمان پر چڑھ جانا بظاہر عادت کے خلاف اور بعض کوتاہ اندیشوں کی نظروں میں نہ صرف مشکل بلکہ محال ہے مگر اللہ کے نزدیک ایسے امورنہ محال ہیں نہ مشکل کیونکہ اللہ بڑا زبردست بڑی حکمت والا ہے بہت سے کام لوگوں کی نظروں میں مشکل ہیں مگر اللہ ایسی حکمت سے ان کو پورا کردیتا ہے کہ بڑے بڑے عقلا حیران رہ جاتے ہیں رفع مسیح بھی ظاہر بینوں کی نظر میں بڑا مشکل ہوتا ہے اللہ نے اس کو کر کے دکھا دیا اور انجام بھی یہ ہوگا کہ قرب قیامت جب مسیح دنیا میں آوے گا تو اس کے مرنے سے پہلے پہلے سب اہل کتاب یہود ونصاری اس کو اللہ کا رسول مان جائیں گے اور وہ قیامت کے دن ان کی شہادت دے گا کہ انہوں نے مجھے جیسا کہ چاہئے تھا مانا خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ مسیح کے متعلق تھا اب اصل کلام سنو پس خلاصہ یہ کہ یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے جب وہ اپنی حد سے گزر گئے اور بہت سے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے اور حرام بیاج لینے کی وجہ سے حالانکہ اس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور لوگوں کا مال حرام طریق سے کھانے کی وجہ سے ہم نے ان پر بہت سی پاک پاک چیزیں جو ان کو پہلے حلال تھیں حرام کردیں یہ ان کی سزا دنیاوی تھی اور قیامت کے روز ان میں سے کافروں کے لئے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے البتہ ان میں سے آلہیات کے پختہ علماء اور عام ایمان دار تیری طرف اتاری ہوئی کتاب اور تجھ سے پہلے اتاری ہوئی کو واقعی طور پر جیساکہ چاہئے مانتے ہیں اور نماز بجماعت پنجگانہ پڑھنے والے قابل مدح ہیں اور حسب طاقت مال کی زکوٰۃ بھی غرباء اور مساکین کو دینے والے اور اللہ اور پچھلے دن (قیامت) پر صحیح ایمان رکھنے والے ہم ان کو بڑا اجر دیں گے