سورة القدر - آیت 1

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بے شک ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر یعنی باعزت اور خیر و برکت والی رات میں نازل (١) کیا ہے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔5) بے شک ہم (اللہ) نے اس قرآن کو رمضان کی ستائیسویں رات لیلۃ القدر میں نازل کرنا شروع کیا تمہیں کیا معلوم لیلۃ القدر کیا ہے سنو ہم ہی بتاتے ہیں لیلۃ القدر میں عبادت کرنی ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے جن میں وہ رات نہو اس میں فرشتے اور روح القدس جبرئیل اپنے رب کے حکم سے نازل ہوتے ہیں دنیا میں نیک وبد بندوں کے اعمال دیکھتے ہیں بدوں کے لئے توفیق عمل کی دعا کرتے ہیں اور نیکوں کے لئے استغفار کرتے ہیں وہ رات طلوع صبح تک پر ہر طرح سے سلامتی والی اور بڑی برکت والی ہے۔ اللھم قدرلنا قیام ھذہ اللیلۃ لیلۃ القدر کی بابت بہت سی صحیح حدیثوں میں ذکر ہے جو اپنا مضمون بتانے میں متفق ہیں۔ منجملہ یہ ہیں۔ (١) عن عائشۃ قالت قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تحرو الیلۃ القدر فی الوتر من العشر الا واخر من رمضان۔ (بخاری) (١) حضرت عائشہ (رض) نے کہا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری دھا کے طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔ (٢) عن ابن عمر قال ان رجلا من اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور الیلۃ القدر فی المنام فی السبع الا واخر فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اری رویاکم قد تواطئت فی السبع الا واخر فمن کان متحریا فلیتحرھا فی السبع الا واخر (بخاری و مسلم) (٢) ابن عمر (رض) نے کہا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں چند آدمیوں کو لیلۃ القدر رمضان کے آخری ہفتہ میں خواب میں دکھائی گئی حضور (علیہ السلام) نے فرمایا میں سمجھتا ہوں تمہارا خواب رمضان کے آخری ہفتہ میں واقع ہوگا پس جو کوئی لیلۃ القدر کی تلاش کرنا چاہے وہ آخری ہفتہ میں کرے۔ (٣) عن ابن عباس ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال التمسوھا فی العشر الاواخر من رمضان فی تاسعۃ تبقی فی سابعۃ تبقی فی خامسۃ تبقی (بخاری) (٣) ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری دھاکہ میں تلاش کیا کرو۔ یعنی مہینے کی انتیسویں ستائیسویں پچیسویں وغیرہ۔ ان جیسی اور بھی احادیث صحیحہ انہی معنی میں متفق و متحد ہیں اسی لئے امت مسلمہ کا اسی پر اتفاق ہے جو ان احادیث کا مضمون ہے کہ ماہ رمضان شریف میں ایک رات ایسی بابرکت ہے۔ مگر ہمارے ملک کے مشہور مصنف بلکہ (علیٰ زعمہ) ملہم۔ بلکہ مجدد بلکہ نبی بلکہ رسول مرزا صاحب قادیانی نے لیلۃ القدر کی بابت کچھ عجیب ہی انکشاف کیا جو قابل دید و شنید ہے۔ آپ لکھتے ہیں۔ ” اللہ تعالیٰ سورۃ القدر میں بیان فرماتا ہے بلکہ مومنین کو بشارت دیتا ہے کہ اس کا کلام اور اس کا نبی لیلۃ القدر میں آسمان سے اتارا گیا ہے اور ہر ایک مصلح اور مجدد جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے وہ لیلۃ القدر میں ہی اترتا ہے تم سمجھتے ہو کہ لیلۃ القدر کیا چیز ہے؟ لیلۃ القدر اس ظلمانی زمانہ کا نام ہے جس کی ظلمت کمال کی حد تک پہنچ جاتی ہے اس لئے وہ زمانہ بالطبع تقاضا کرتا ہے کہ ایک نور نازل ہو جو اس ظلمت کو دور کرے اس زمانہ کا نام بطور استعارہ کے لیلۃ القدر رکھا گیا ہے مگر درحقیقت یہ رات نہیں ہے یہ ایک زمانہ ہے جو بوجہ ظلمت رات کا ہمرنگ ہے نبی کی وفات یا اس کے روحانی قائم مقام کی وفات کے بعد جب ہزار مہینہ جو بشری عمر کے دور کو قریب الاختتام کرنے والا اور انسانی حواس کو الوداع کی خبر دینے والا ہی گزر جاتا ہے تو یہ رات اپنا رنگ جمانے لگتی ہے تب آسمانی کاروائی سے ایک یا کئی مصلحوں کی پوشیدہ طور پر تخم ریزی ہوجاتی ہے جو نئی صدی کے سر پر ظاہر ہونے کے لئے اندر ہی اندر تیار ہو رہتے ہیں اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے کہ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِنْ اَلْفِ شَھْرٍ یعنی لیلۃ القدر کے نور کو دیکھنے والا اور وقت کے مصلح کی صحبت سے شرف حاصل کرنے والا اس اسی ٨٠ برس کے بڈھے سے اچھا ہے جس نے اس نورانی وقت کو نہیں پایا اور اگر ایک ساعت اس وقت کو پالیا ہے تو یہ ایک ساعت اس ہزار مہینے سے بہتر ہے جو پہلے گزر چکے کیوں بہتر ہے؟ اس لئے کہ اس لیلۃ القدر میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے اور روح القدس اس مصلح کے ساتھ رب جلیل کے اذن سے آسمان سے اترتے ہیں نہ عبث طور پر بلکہ اس لئے کہ تامستعددلوں پر نازل ہوں اور سلامتی کی راہیں کھولیں سو وہ تمام راہوں کے کھولنے اور تمام پردوں کے اٹھانے میں مشغول رہتے ہیں یہاں تک کہ ظلمت غفلت نسور ہو کر صبح ہدائت نمودار ہوجاتی ہے۔“ (فتح اسلام تقطیع کلاں ص ٢٦) ناظرین : اس رائے کو احادیث نبویہ کے سامنے رکھ کر دیکھیں کہ اس میں اور احادیث نبویہ میں موافقت اور مطابقت کی کوئی صورت ہے؟ ہم تو اس کو تصریحات نبویہ کے مقابلہ میں محض تجدید قادیاں جانتے ہیں ہاں مزید توضیح کے لئے مرزا صاحب کا ایک اور کلام دکھاتے ہیں جس میں انہوں نے عمر دنیا کی تقسیم کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔ ” اللہ نے آدم ( علیہ السلام) سے لے کر اخیر تک دنیا کی عمر سات ہزار برس رکھی ہے اور ہدایت اور گمراہی کے لئے ہزار ہزار سال کے دور مقرر کئے ہیں یعنی ایک وہ دور ہے جس میں ہدایت کا غلبہ ہوتا ہے اور دوسرا وہ دور ہے جس میں ضلالت اور گمراہی کا غلبہ ہوتا ہے اور جیسا کہ مینے بیان کیا اللہ تعالیٰ کی کتابوں میں یہ دونوں دور ہزار ہزار پر تقسیم کئے گئے ہیں اول دور ہدائت کے غلبہ کا تھا اس میں بت پرستی کا نام و نشان نہ تھا جب یہ ہزار سال ختم ہوا تب دوسرے دور میں جو ہزار سال کا تھا طرح طرح کی بت پرستیاں دنیا میں شروع ہوگئیں اور شرک کا بازار گرم ہوگیا اور ہر ایک ملک میں بت پرستی نے جگہ لی پھر تیسرا دور جو ہزار سال کا تھا اس میں توحید کی بنیاد ڈالی گئی اور جس قدر اللہ نے چاہا دنیا میں توحید پھیل گئی پھر ہزار چہارم کے دور میں ضلالت نمودار ہوئی اور اسی ہزار چہارم میں سخت درجہ پر بنی اسرائیل بگڑ گئے اور عیسائی مذہب تخم ریزی کے ساتھ ہی خشک ہوگیا اور اس کا پیدا ہونا اور مرنا گویا ایک ہی وقت میں ہوا پھر ہزار پنجم کا دور آیا جو ہدائت کا دور تھا یہ وہ ہزار ہے جس میں ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر توحید کو دوبارہ دنیا میں قائم کیا پس آپ کے من جانب اللہ ہونے پر یہی ایک نہائت زبردست دلیل ہے کہ آپ کا ظہور اس ہزار کے اندر ہوا جو روز ازل سے ہدائت کے لئے مقرر تھا اور یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی تمام کتابوں سے یہی نکلتا ہے اور اسی دلیل سے میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس تقسیم کی رو سے ہزار ششم ضلالت کا ہزار ہے اور وہ ہزار ہجرت کی تیسری صدی کے بعد شروع ہوتا ہے اور چودھویں صدی کے سر تک ختم ہوجاتا ہے اس ششم ہزار کے لوگوں کا نام آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیج اعوج رکھا ہے اور ساتواں ہزار ہدائت کا ہے جس میں ہم موجود ہیں۔“ (لکچر اسلام بمقام سیالکوٹ) ص ٦ ناظرین کرام ! اس حوالے میں مرزا صاحب نے بڑی صفائی سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ پیدائش کو زمانہ ہدایت بتایا ہے جو تیسری صدی کے خاتمہ تک رہا چوتھی کے شروع سے الف ضلالت شروع ہوا جس کے گیارہ سال رہتے مرزا صاحب پیدا ہوئے ١٤٠٠؁ھ شروع ہونے پر آپ کی عمر گیارہ سال ہوگی یقینا اس عمر میں تو آپ نے تبلیغی کام شروع نہ کیا ہوگا بلکہ ابھی طالب علمی کے ابتدائی مرحلے میں ہوں گے تبلیغی کام یقینا آپ نے ساتویں ہزار میں شروع کیا جو ہدائت کا ہزار ہے حالانکہ بقول آپ کے چاہیے یہ تھا کہ آپ ہزار ششم میں ایسے وقت پیدا ہوتے جب کہ ضلالت کی وجہ سے لیلۃ القدر تھی تاکہ اس کا مقابلہ کرتے جیسا کہ آپ کے یہ الفاظ منقولہ از ” فتح اسلام “ (ہر مصلح لیلۃ القدر میں ہی آتا ہے) دلالت کرتے ہیں مگر آپ بحیثیت مصلح آتے تو ہزار ہفتم میں آئے تاہم ہم وسعت قلبی سے آپ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎ دیر آمدی و بخیر آمدی بیٹا باپ سے آگے : ناظرین مرزا صاحب کی منقولہ از لکچر سیالکوٹ عبارت ایک نظر پھر دیکھ جائیں کہ ایسی وضاحت سے دنیا کی عمر سات ہزاروں پر تقسیم کر کے ساتویں ہزار کے بعد دنیا کا خاتمہ (فنا) بتا رہے ہیں کہ کسی مزید توضیح کی ضرورت نہیں اس کے بعد آپ کے خلف الصدق میاں محمود احمد خلیفہ کی تحریر دل پذیر دیکھئے جو اپنی وضاحت اور صفائی کے لحاظ سے بے نظیر ہے آپ فرماتے ہیں تیرا (محمود کا) اپنا عقیدہ یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود (مرزا صاحب) اس دور کے خاتم ہیں اور اگلے دور کے آدم بھی آپ ہی ہیں کیونکہ پہلا دور سات ہزار سال کا آپ پر ختم ہوا اور اگلا دور آپ سے شروع ہوا اسی لئے آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء اس کے یہی معنی ہیں کہ آپ آئندہ نبیوں کے حلوں میں آئے ہیں جس طرح پہلے انبیا کے ابتدائی نقطہ حضرت آدم (علیہ السلام) تھے اسی طرح حضرت مسیح موعود (مرزا صاحب) جو اس زمانہ کے آدم ہیں آئندہ آنے والے انبیاء کے ابتدائی نقطہ ہیں“ (جل جلالہ) (اخبار الفضل قادیاں ١٤ فروری ٢٨ئ۔) پس : باپ بیٹے کی عبارات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مرزا صاحب کی زندگی میں دنیا کا دور ثانی شروع ہوگیا جو بقول مرزا صاحب (لیکچر سیالکوٹ) ابتدائی ہزار ہونے کی وجہ سے سراسر ہدائت کا زمانہ ہے اس میں نہ شرک ہے نہ کفر نہ بت پرست ہے نہ قبر پرستی غرض اس زمانہ کی توحید خالص اور دین کامل کا زمانہ کہنا چاہیے جس میں کسی قسم کا شرک و کفر نمودار نہیں۔ ہاں یہ بھی کہنا ہوگا کہ ابھی نہ ابراہیم نہ موسیٰ نہ عیسیٰ پیدا ہوئے‘ اور محمدی دور (علیہم السلام) تو کہیں پانچویں ہزار سال میں ہوگا اس لئے سوال یہ ہے کہ آج کل کلمہ کس کا خلیفہ قادیانی کا پڑھیں اور کس کا پڑھنا چاہیے کچھ شک نہیں کہ آج کل کلمہ تو ہم سب کا یہی ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ لیکن بقول باپ بتشریح بیٹا یہ کلمہ قبل از وقت ہے صحیح بروقت یہ ہے کہ آج کل سب لوگوں کو یہ کلمہ پڑھنا چاہیے۔ لاَ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ مرزا اٰدم صفی اللّٰہ چنانچہ مرزا صاحب قادیانی کا شعر ہے ؎ میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بیشمار مرزا صاحب کی وفات سے پانچویں ہزار سال محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوں گے تو اس وقت کلمہ میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ملاپ ہوگا۔ کیا اچھی تجدید اسلام ہے۔ منہ میری پیدائش اس وقت ہوئی جب چھ ہزار میں سے گیارہ برس رہتے تھے۔ (قول مرزا در حاشیہ ص ٩٥ تحفہ گولڑدیہ)