سورة الطارق - آیت 1

وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

قسم (١) ہے آسمان کی، اور رات کو آنے والے کی

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔17) قسم ہے اس نیلگوں آسمان کی اور قسم ہے رات کو آنے والے طارق کی اے انسان تجھے کس نے بتایا کہ طارق کیا ہے ہم بتاتے ہیں وہ چمکنے والا ستارہ ہماری قسم کا جواب یہ ہے کہ ہر ایک نفس پر اللہ تعالیٰ محافظ ہے جو اس کی ہستی کو بحال رکھتا ہے اگر اللہ اپنی حفاظت اٹھا لے تو کوئی دوسرا شخص حفاظت نہیں کرسکتا پس انسان کو یہی چاہیے کہ اس امر کا خیال رکھے ایسا نہ ہو کہ وقت پر اسے تکلیف پہنچے خیال رکھنے کی صورت یہ ہے کہ انسان سب سے پہلے غور کرے کہ وہ کس چیز سے بنایا گیا ہے اس امر کے سمجھنے میں اسے کچھ وقت ہو تو ہم اسے بتاتے ہیں کہ وہ اچھل کر نکلنے والے پانی منی کے نطفے سے پیدا ہوا ہے جو اپنی پہلی صورت یعنی خون ! ہونے کی حالت میں سینے اور پسلیوں کے بیچ میں سے خصیوں میں آتا ہے منی کا ظرف خصتین ہیں جہاں سے وہ نکل کر رحم عورت میں جاتی ہے آئت موصوفہ میں جو صلب اور ترائب میں سے نکلنے کا ذکر ہے یہ اس کی پہلی صورت دمویہ ہے نہ منویہ۔ کذا فی التفسیر الکبیر۔ ١٢ منہ اپنی ہستی کی ابتدا جان کر وہ اس بات کو دل میں جمائے کہ بے شک وہ اللہ اس کو دوبارہ زندگی دینے پر قادر ہے مگر یہ کام یعنی اس کا دوبارہ زندگی میں آنا اس روز ہوگا جس روز انسانوں کی تمام مخفی باتیں کھل جائیں گی اور سب کے سامنے آجائیں گی ایسی کہ وہ جان لیں گے کہ واقعی ہم نے یہ کی ہیں پھر اس کو نہ اپنی قوت ہوگی نہ اس کا کوئی مددگار ہوگا بلکہ صرف اپنی جان ہوگی اور گناہوں کا انبار بس انسان کو چاہیے کہ اس روز کا فکر دل میں رکھے سنو قسم ہے گردش کرنے والے آسمان کی اور پھٹنے والی زمین کی جو سبزیاں نکلتے وقت پھٹتی ہے اس قسم سے ہمیں یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ قرآن کا پیغام طے شدہ بات ہے اور مخول یا دل لگی نہیں پس تم اسے قبول کرو ہم جانتے ہیں کہ یقینا یہ لوگ اسے نہیں مانتے بلکہ تیری ایذا رسانی میں مخفی مخفی چالیں چلتے ہیں میں اللہ بھی ان کو جواب میں ان کی نظروں سے مخفی حکم جاری کرتا ہوں جس سے ان کی چالوں کا اثر مٹ جاتا ہے عنقریب ایسے حال میں پھنسیں گے کہ نکلنا مشکل ہوجائے گا پس اے رسول تو ان کو مہلت دے اور کچھ عرصہ انہیں چھوڑ دے عنقریب تو بھی دیکھ لے گا اور یہ بھی دیکھ لیں گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔