سورة الفاتحة - آیت 6

اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ہمیں سیدھی راہ پر چلا

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

وہ مطلب یہ کہ دین میں ہمیں سیدھی راہ پر پہنچا اور اگر یہی ہے جس پر ہم ہیں تو اسی پر ہمیں قائم رکھ اے ہمارے مولا ! ہماری یہ آرزو نہیں کہ جس راہ کو ہم ناقص العقل لوگ سیدھی سمجھیں یا ہمارے اور بھائی اچھی جانیں وہ دکھا۔ حاشا وکلا بلکہ ان بزرگوں کی راہ پر پہنچا جن پر تو نے بوجہ ان کی دینداری کے بڑے بڑے انعام کئے عطیات دیے اور مہربانیاں مبذول فرمائیں۔ نہ ان بے ایمان لوگوں کی جن پر انکی بدعملی کے سبب سے غضب کیا گیا جیسے یہودی وغیرہ۔ نہ ان لوگوں کی جو بوجہ اپنی کو تہ اندیشی کے گمراہ ہیں جیسے عیسائی وغیرہ۔ اے ہمارے مہربان مولا ! ہم عاجزوں کی یہ التماس مخلصانہ قبول فرما۔ اِھْدِنَا۔ یہ پہلا موقع قرآن کریم کا ہے کہ دعا کا اس میں ذکر آیا۔ نہ صرف ذکر آیا بلکہ تعلیم کی گئی۔ قرآن کریم اور حدیث شریف سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ دعا جب دل کی توجہ سے کی جائے تو ضرور ہی قبول ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں تو صریح ارشاد ہے۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَان یعنی مانگنے والا جب مجھ سے دعا مانگتا ہے تو میں قبول کرتا ہوں۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ ایسا جوّاد ہے کہ دعا گو بندے کے ہاتھ خالی پھیرنے سے اسے شرم آتی ہے۔ اسی مضمون کی آیات اور احادیث کثیر التعداد ہیں۔ جملہ اہل اسلام بلکہ جمہور انام بھی اس امر پر متفق ہیں اور عقل بھی اسی کی مقتضی ہے کہ ایک عاجز بندہ جو اپنے اللہ کو سب طاقتوں کا مالک جان کر اس سے اپنے ارادوں کے پورا ہونے میں امداد چاہتا ہے۔ تو ایسے وقت میں اس عاجز بندے کی حاجت روائی نہ کرنا ایک قسم کا بخل ہے۔ جب کہ انسانی طبائع کا تقاضا ہے کہ اگر کسی سائل کا سوال الحاج کو پہونچتا ہے تو طبیعت انسانی اس کی حاجت روائی پر متوجہ ہوتی ہے۔ حالانکہ انسانی طبائع میں بخل بھی ہے پھر جو ذات ستودہ صفات بخل اور امساک سے مبرّا ہو اس کا یہ تقاضا ہو کہ سائل کے سوال پر متوجہ نہ ہو۔ تو اس سے زیادہ بخل کیا ہوگا؟ تعَالی اللّٰہ عن ذٰلک علوّا کبیرا یَسْئَلُہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَانٍ فَبِاَّیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ۔ یہی وجہ ہے کہ سب لوگ بالطبع تکلیف کے وقت اس فعل پر مجبور ہوتے ہیں اور اس کی طفیل سے اپنی حاجت روائی کی امید رکھتے ہیں۔ مگر اس زمانہ کے محقق سر سید احمد خاں علی گڈھی اس امر میں نہ صرف اہل اسلام بلکہ جملہ انام سے بھی مخالف ہو بیٹھے ہیں اور قبولیت دعا کے وہ معنے نہیں مانتے جو سب لوگ مانتے ہیں۔ چنانچہ اپنی تفسیر کی پہلی جلد میں یوں رقمطراز ہیں :۔ ” دعا جب دل سے کی جاتی ہے ہمیشہ مستجاب ہوتی ہے۔ مگر لوگ دعا کے مقصد اور استجابت کا مطلب سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جس مطلب کے لئے ہم دعا کرتے ہیں۔ دعا کرنے سے وہ مطلب حاصل ہوجائے گا۔ اور استجابت کے معنے اس مطلب کا حاصل ہوجانا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ غلطی ہے۔ حصول مطلب کے لئے جو اسباب اللہ نے مقرر کئے ہیں وہ مطلب تو انہی اسباب کے جمع ہونے سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر دعا نہ تو اس مطلب کے اسباب سے ہے اور نہ اس مطلب کے اسباب کو جمع کرنے والی ہے بلکہ وہ اس قوت کو تحریک کرنے والی ہے۔ جس سے اس رنج و مصیبت اور اضطراب میں جو مطلب کے نہ حاصل ہونے سے ہوتا ہے تسکین دینے والی ہے“ (صفحہ ١٨) ناظرین غور کریں کہ سرسیّد کی کس قدر جرأت ہے اور مجھے ہمیشہ ان کی جرأت پر تعجب ہوا کرتا ہے کہ تمام جہان کے مقابلہ پر خم ٹھونک کر کھڑے تو ہوجائیں مگر اس کے سامان مہیا نہیں کرتے۔ کوئی دلیل قوی تو کجا ضعیف بھی اپنے دعویٰ پر پیش نہیں کرتے۔ بتلا دیں تو اس مسئلہ میں جو سب لوگوں کے خلاف رائے ظاہر کی۔ تو اس کی کوئی دلیل بھی بیان کی ہے؟ ہمارے خیال میں سرسید کا یہ کہنا تو صحیح ہے کہ اس مطلب کے اسباب میں سے نہیں مگر یہ فرمانا کہ نہ اس مطلب کے اسباب کو جمع کرنے والی ہے غلط ہے۔ ہم حسب درخواست سید صاحب تفسیر القرآن بالقرآن کئی ایک آیتیں بتلاتے ہیں جن سے سرسیّد کے اس بیان کی غلطی ناظرین و نیز سید صاحب پر پورے طور سے منکشف ! ہوجائے گی۔ اس مطلب کو بہت سی جگہ اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ انبیاء سابقین نے جب تنگ آکر دعا کی تو ہم نے فوراً ان کے دشمنوں کو ہلاک کیا۔ چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی نسبت فرمایا فَدَعَا "رَبَّہٗٓ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ۔ فَفَتَحْنَآ اَبْوَاب السَّمَآئِ بِمَآَئِ مُّنْھَمِرٍ وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآئُ عَلٰیٓ اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ۔ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ فآء کو جس کا ترجمہ ” پس“ ہے۔ جب کسی کلام پر تعاقب لاتے ہیں تو پہلا کلام پچھلے کے لئے سبب ہوتا ہے جیسے سبَّنی زیدٌ فضربتُہ ” مجھے زید نے گالی دی پس میں نے اسے پیٹا“ اس سے صاف ظاہر ہے کہ گالی دینا پیٹنے کے لئے سبب ہے۔ اسی طرح اس آیت میں فَدَعَا رَبَّہٗ۔ فَفَتَحْنَا کے لئے علت ہے جس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا بارش کے لئے یا کم سے کم بارش کے اسباب جمع کرنے کے لئے سبب ہوئی۔ گو کفار کی ہلاکت کے اسباب کچھ اور ہی ہوں۔ مگر اس میں شک نہیں کہ ان اسباب کو جمع کرنے میں دعا کو بھی دخل ہے ورنہ ” ف“ لا کر فَفَتَحْنَا فرمانا بے معنے ہے۔ دوسری جگہ بھی اسی طرح فرمایا۔ اِنَّ قَوْمِیْ کَذَّبُوْنِ فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَبَیْنَھُمْ فَتْحًا وَّنَجِّنِیْ وَمَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فَاَنْجَیْنٰہ وَمَنْ مَّعَہٗ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ ثُمَّ اَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبَاقِیْنَ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً وَّمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ناظرین ذرہ غور فرمائیں کہ کس طرح پہلے کلام پر پچھلے کو تقریباً بیان فرمایا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے دعا کی کہ ” اے اللہ تو ہم میں فیصلہ کر اور مجھے اور میرے ساتھیوں کو اس سے نجات دے“ اس سے آگے کے لفظوں میں ارشاد ہے کہ ” پس نوح ( علیہ السلام) کی دعا کرتے ہی ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی“ جس سے ایک جزء دعا کا پورا ہوا۔ ” پھر دوسروں کو ہلاک کردیا“ جس سے حضرت نوح ( علیہ السلام) کی دعا کے دونوں جزء پورے کر دئیے ” بیشک اس میں بڑی نشانی ہے کہ اللہ اپنے بندوں کی دعا کو ضائع نہیں کیا کرتا۔ لیکن بہت سے لوگ (مثل سید صاحب کے) نہیں مانتے “۔ ایک اور مقام پر اس سے بھی واضح طور پر بیان فرمایا بلکہ اجابت دعا کے معنے بھی صاف صاف بتلا دیئے۔ چنانچہ ارشاد ہے۔ فَاَسْتَجَابَ لَکُمْ رَبُّکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ یعنی اے مسلمانو ! تمہاری دعا فتح اسلام کے بارے میں اللہ نے اس طور سے قبول کی کہ میں تمہاری مدد کرنے کو ایک ہزار فرشتہ# نشاندار بھیجوں گا “ سرسید نے بجواب مولوی مہدی علی ملقب نواب محسن الملک مرحوم درخواست کی ہوئی ہے کہ آپ اپنے مطلب پر دلیلی عقلی یا نقلی ضرور پیش کریں۔ اور دلیل نقلی کی تعریف سید صاحب نے یہ کی ہے کہ تفسیر القرآن بالقرآن ہو۔ (دیکھو تہذیب الاخلاق بابت رمضان ١٣١٢؁ھ صفحہ ٢٥٤) ! طبع اوّل تفسیر ہذا سرسید مرحوم کی زندگی میں ہوا تھا۔ اور یہ جلد ان کو پہونچ چکی تھی۔ ہم بگمان حسن خاتمہ دعا کرتے ہیں رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِیْمَانِ (منہ) " نوح نے اپنے رب کو پکارا کہ میں مغلوب ہوں۔ میری مدد کر پس ہم نے جوش والا پانی آسمان سے برسایا اور زمین سے چشمے نکالے پس پانی اپنے اندازہ (ہلاکت کفار) کو پہنونچ گیا (ترجمہ) منہ سید صاحب کا مذہب نزول ملائکہ کی نسبت ہمیں معلوم ہے اس کا ذکر اپنے موقعہ پر آئے گا وہ ہمیں کسی طرح مضر نہیں ہمارا مطلب تو صرف اس سے ہے کہ اِسْتَجَابَ کا مفعول اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ واقع ہے پس اگر ہمارا مطلب صحیح نہ ہو تو کلام میں کذب لازم آئے گا۔ وللتفصیل مقام اٰخر (منہ) اس سے صاف اور صریح طور پر معلوم ہوا کہ قبولیت دعا کے یہ معنے ہیں کہ جو مراد مانگی جائے وہ حاصل ہوجائے جیسے کہ صحابہ کرام کو جنگ بدر میں حاصل ہوئی۔ اس قسم کی بہت سی آیات قرآنی ہیں جن سے صاف صاف اگر بے تعصبی سے باقاعدہ سمجھنا چاہیں تو مفہوم ہوتا ہے کہ ہاں دعا بھی واقع حصول مطلب میں دخل رکھتی ہے بلکہ بھاری سبب ہے۔ نہیں معلوم سید صاحب کو اس کے مخالف کون سی دلیل عقلی یا نقلی سوجھی جو اس سے انکاری ہو بیٹھے۔ اگر وہی شبہ ہے جو عموماً عام لوگوں کو ہوا کرتا ہے کہ جس کام کے لئے دعا کی جاتی ہے اگر وہ شدنی ہے۔ تو دعا بے فائدہ ہے اور اگر ناشدنی ہے تو دعا سے ہو نہیں سکتا۔ تو اس کا جواب وہی ہے جو حافظ ابن قیم (رح) نے ” الجواب الکافی“ میں دیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دعا بھی مثل دیگر اسباب خورد و نوش کے ہے۔ جیسے کھانا بھوک کے لئے اور پینا پیاس کے لئے۔ پس اگر یہی سوال کھانے اور پینے پر وارد ہو کہ اگر بھوک نے جانا ہی ہے تو کھانے کی بھی حاجت نہیں اور اگر نہیں جانا تو کھانے سے بھی نہیں جائے گی پھر اس سوال کا جواب غالباً سرسید بھی یہی دیں گے کہ کسی چیز کا مقدر ہونا اس چیز کے متسبب ہونے کے مخالف نہیں ورنہ دنیا میں کوئی چیز بھی ایک دوسری سے مسبب نہ ہو اس لئے کہ سب امور واقعیہ کی تقدیر ہوچکی ہے۔ پس اسی پر دعا کو بھی قیاس فرما لیجئے۔ اصل یہ ہے کہ دنیا میں جس قدر اسباب اللہ نے مقرر فرمائے ہیں ان سب کا یہی حال ہے کہ بعض دفعہ ان کے ہونے سے بھی وہ مطلب حاصل نہیں ہوتا اس لئے کہ محض اسباب کے ہونے سے ہی متسبب کا وجود نہیں ہوا کرتا۔ جب تک کہ اس کے موانع بھی معدوم نہ ہوں مثلاً آفتاب دھوپ کے لئے ایک سبب ہے حالانکہ اس کے طلوع سے جب تک کہ موانع مثل بادل وغیرہ کے مرتفع نہ ہوں دھوپ نہیں ہوتی۔ اس ہماری تقریر سے ایک اور شبہ بھی دور ہوگیا۔ جو دعا کے سبب ہونے پر کیا جاتا ہے جسے سید صاحب نے بھی تہذیب الاخلاق ماہ ربیع الاوّل ١٣١٣؁ھ میں پیش کیا ہے۔ کہ بسا اوقات دعا کی جاتی ہے مگر حاجت پوری نہیں ہوتی۔ پس معلوم ہوا کہ دعا کوئی سبب حصول مقصود کے لئے نہیں ہے ورنہ ایسا نہ ہوتا“ اس لئے کہ اگر حاجت روائی نہ ہونے سے دعا کے سبب ہونے میں شبہ آتا ہو تو دھوپ کے لئے آفتاب کے سبب ہونے میں یہی شبہ ہونا چاہیے بلکہ جو لوگ فی زماننا نوکری کے لئے پڑھتے ہیں اور سید صاحب بھی تعلیم علوم جدیدہ کو زمانہ حال میں معاش کا بڑا بھاری سبب جانتے ہیں۔ حالانکہ بہت سے تعلیم یافتہ حیران و سر گردان ہیں پس ان کی ناکامی سے معلوم ہوا کہ علوم جدیدہ حصول معاش کے لئے سبب نہیں؟ حالانکہ ان کی ناکامی بہ نسبت دعا گوئوں کے تعجب انگیز ہے کیونکہ دعا گوئوں کو علیم حکیم سے معاملہ ہے جس کی نسبت یہ بھی گمان ہے کہ اس کے علم اور حکمت میں مطلوب کا ملنا ان کو مفید نہ ہو یا ان میں بعض امور ایسے ہوں جو دعا کی قبولیت کو مانع ہوں جیسے حدیث میں آیا ہے کہ بعض لوگ حالانکہ ان کا کھانا پینا اور لباس سب حرام ہوتا ہے پھر ان کی دعا کیسے قبول ہو؟“ قرآن کریم نے بھی فلیستجیبولی کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے۔ خلاصہ یہ کہ دعا بھی مثل اور اسباب کے ایک سبب ہے پس جیسے اور اسباب پر حصول مطلب ضروری نہیں باوجود اس کے ان کی سببیت میں شبہ نہیں آتا اسی طرح اس میں بھی نہیں۔ ودلیلہ ما مرفتذکّرٰ (منہ)