سورة التكوير - آیت 4

وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں چھوڑدی جائیں گی

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

اور جس وقت مارے دہشت کے محبوب تریں مال جیسا عرب میں گابھن اونٹنیاں ہیں یہ بھی بے کار بے رغبت چھوڑی ! جائیں گی کوئی ان کا مالک نہ بنے گا نہ کوئی ان کے ضائع ہوجانے کا خیال کرے گا ہمارے پنجاب کے مدعی نبوت جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے اس آیت کو اپنے حق میں لیا ہے کہتے ہیں اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اونٹنیوں پر سواری کرنی ترک ہوجائے گی تو مسیح موعود آجائے گا چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں۔ ” آسمان نے میرے لئے گواہی دی اور زمین نے بھی مگر دنیا کے اکثر لوگوں نے مجھے قبول نہ کیا میں وہی ہوں جس کے وقت میں اونٹ بیکار ہوگئے اور پیشگوئی آیہ کریمہ و اذا العشار عطلت پوری ہوئی اور پیشگوئی حدیث و لیترکن القلاص فلا یسعی علیھا نے اپنی پوری پوری چمک دکھلائی یہاں تک عرب اور عجم کے اڈیٹران اخبار اور جرائد والے بھی اپنے پرچوں میں بول اٹھے کہ مدینہ اور مکہ کے درمیان جو ریل تیار ہو رہی ہے یہی اس پیشگوئی کا ظہور ہے جو قرآن و حدیث میں ان لفظوں سے کی گئی تھی جو مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے“ (اعجاز احمدی ص ٢) اس مضمون کو دوسرے مقام پریوں لکھتے ہیں۔ ” اور یاد رہے کہ اسی زمانے کی نسبت مسیح موعود کے ضمن بیان میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی خبر دی ہے جو صحیح مسلم میں درج ہے اور فرمایا و لیتر کن القلاص فلا یسعی علیھا یعنی مسیح موعود کے زمانے میں اونٹنی کی سواری موقوف ہوجائے گی پس کوئی ان پر سوار ہو کر ان کو نہیں دوڑائے گا اور ریل کی طرف اشارہ تھا کہ اس کے نکلنے سے اونٹوں کے دوڑانے کی حاجت نہیں رہے گی اور اونٹ کو اس لئے ذکر کیا کہ عرب کی سواریوں میں سے بڑی سواری اونٹ ہے جس پر وہ اپنے مختصر گھر کا تمام اسباب رکھ کر پھر سوار بھی ہوسکتے ہیں اور بڑے کے ذکر میں چھوٹا خود ضمنا آجاتا ہے پس حاصل مطلب یہ تھا کہ اس زمانے میں ایسی سواری نکلے گی کہ اونٹ پر بھی غالب آجائے گی جیسا کہ دیکھتے ہو کہ ریل کے نکلنے سے قریبا وہ تمام کام جو اونٹ کرتے تھے اب ریلیں کر رہی ہیں پس اس سے زیادہ تر صاف اور منکشف اور کیا پیشگوئی ہوگی چنانچہ اس زمانہ کی قرآن شریف نے بھی خبر دی ہے جیسا کہ فرمایا ہے واذا العشار عطلت یعنی آخری زمانہ وہ ہے جب کہ اونٹنی بیکار ہوجائے گی یہ بھی صریح ریل کی طرف اشارہ ہے اور وہ حدیث اور یہ آیت ایک ہی خبر دے رہی ہیں اور چونکہ حدیث میں صریح مسیح موعود کے بارے میں یہ بیان ہے اس سے یقینا یہ استدلال کرنا چاہیے کہ آیت بھی مسیح موعود کے زمانے کا حال بتا رہی ہے اور اجمالا مسیح موعود کی طرف اشارہ کرتی ہے پھر لوگ باوجود ان آیات بینات کے جو آفتاب کی طرح چمک رہی ہیں ان پیشگوئیوں کی نسبت شک کرتے ہیں“ (دافع البلاء ص ١٣) ناظرین کرام ! مرزا صاحب کا مدعا صاف ہے کہ آپ نے ریل کی وجہ سے اونٹوں کا متروک ہونا مسیح موعود کی علامت بتائی ہے جو لوگ اس بات کو نہیں مانتے ان پر خفگی کا اظہار فرمایا ہے۔ ان کی خفگی کے الفاظ یہ ہیں۔ ” یہ بھی احادیث میں آیا تھا کہ مسیح کے وقت میں اونٹ ترک کئے جاویں گے اور قرآن مجید میں بھی وارد تھا و اذا العشار عطلت اب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ میں بڑی سرگرمی سے ریل تیار ہو رہی ہے اور اونٹوں کے الوداع کا وقت آگیا پھر اس نشان سے کچھ فائدہ نہیں اٹھاتے (اشتہار انعامی پانچ سو ملحقہ تریاق القلوب ص ٨) اللہ کی شان واقعات پر کسی کو قبضہ نہیں یہ وہ زمانہ ہے جب سلطان عبد الحمید خاں مرحوم نے مسلمانان دنیا سے اپیل کی تھی کہ حجاز ریلوے کے لئے چندہ دو مرزا صاحب نے سمجھا کہ عبد الحمید جیسا ضابط اور مقبول سلطان حجاز میں ریل بنانے کا ارادہ کرچکا ہے تو پھر دیر کے سچ ہوسکتی ہے مگر انہوں نے خیال نہ کیا کہ سلطان موصوف سے اوپر جو سلطان جہان ہے اس میں یہ طاقت ہے کہ سلطان کے ارادہ کو ناکام کر دے اللہ کی حکمتیں وہی جانتا ہے حجاز ریلوے اسلامی دنیا کے لئے عموما اور حجاز کے لئے خصوصا کتنی کچھ مفید تھی شاید اس فائدہ کے مقابلے میں جو مسلمانوں کو غلطی سے بچانا تھا وہ اہم ہو اس لئے جونہی مرزا صاحب اس ریلوے کو اپنے حق میں لکھا حکیم مطلق نے اسے بند کردیا یہاں تک کہ زائرین حجاز دیکھ رہے ہیں اور ہر سال دیکھتے ہیں کہ مدینہ شریف سے مکہ معظمہ کی طرف قدم بھر بھی ریلوے لائن نہیں بنی پھر انہیں معلوم مرزا صاحب حجاز ریلوے کو اس آیت کے ماتحت کیوں لکھ کر اپنے بر خلاف ایک پہاڑ کھڑا کرلیا۔ یہ تو ہے واقعات سے جواب اب ہم آیت کے الفاظ سے جواب دلاتے ہیں۔ آیت کریمہ میں بارہ دفعہ (اذا) آیا ہے علما اور طلبا جانتے ہیں کہ (اذا) ظرف زمان کے لئے ہوتا ہے اس لئے جو جواب اس کا آگے آتا ہے اسی سے اس کا تعلق ہوتا ہے اس جگہ اس ” اذا“ کا جواب خود قرآن مجید کے الفاظ میں موجود ہے علمت نفس ما احضرت یعنی جب یہ واقعات ہوں گے اس وقت ہر کوئی اپنے نیک و بد کا مونکوجان جائے گا اگر اس سے مرزا صاحب کی مسیحیت موعود مراد ہوتی تو ” اذا“ کا جواب یوں چاہیے تھا۔ ” خرج المسیح الموعود“ جب یہ واقعات ہوں گے تو مسیح موعود آجائے گا۔ “ پس قرآن مجید کے الفاظ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے پیچھے جانے سے ڈر لگتا ہے کہ اس آیت کے مصداق نہ بن جائیں۔ اتستبدلون الذی ھو ادنی بالذی ھو خیر۔ منہ