قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ
لعنت ہو انسان (٥) پر، کتنا شکرا ہے
(17۔32) افسوس ہے کہ دنیا میں ایسے انسان بھی ہیں جو اس نعمت قرآن کی قدر نہیں کرتے ایسے انسان کو اللہ کی مار کیسا ناشکرا ہے جو اللہ کی مہربانی کی قدر نہیں کرتا کمبخت یہ بھی نہیں دیکھتا کہ اللہ نے اس کو کس چیز سے پیدا کیا وہ اگر بھولا ہو تو ہم ہی بتاتے ہیں منی کی بوند سے پیدا کیا دیکھو تو اس اللہ نے اس کو اندر ہی اندر بنایا پھر اس کا اندازہ باندھ دیا اس کے اعضاء کا اس کے قد کا اس کی عمر کا اس کی خوراک کا اس کی زندگی اور موت کا غرض اس کی سب چیزونکا اندازہ اور وقت مقرر کر رکھا ہے یہ سب کام اس کے یا ہر کرانے سے پہلے ہی کردیتا ہے پھر اس کے لئے ماں کے پیٹ سے نکلنے کا راستہ آسان کردیا پھر وہ دنیا میں زندہ رہتا ہے جب تک اس کی زندگی مقدر ہوتی ہے پھر جب ختم ہوتی ہے تو اس کو مار کر قبر میں داخل کردیتا ہے یا جہاں کوئی مرتا ہے وہاں ہی اس کو نظروں سے گم کردیا جاتا ہے جل کر راکھ کی صورت ہوجائے دریا میں مچھلیوں کی غذا کی شکل میں غرض ہر طرح پر وجود سے فنا کی طرف چلا جاتا ہے پھر جب اللہ چاہے گا اس کو جزا وسزا کے لئے مکرر زندہ کر کے اٹھا لے گا دیکھو اتنا سن سنا کر اور قدرت کے اتنے واقعات دیکھ کر بھی انسان نے اپنا فرض ادا نہیں کیا کمبخت ایسا اکڑا پھرتا ہے کہ الٰہی احکام سنکر پرواہ نہیں کرتا بھلا گذشتہ واقعات کی نسبت تو یہ کہہ سکتا ہے گو اس کا کہنا یہ لغو ہے کہ میں نہیں جانتا مجھے اللہ نے مٹی سے پیدا کیا اور کب کیا مگر حالات حاضرہ کی نسبت کیا کہہ سکتا ہے پس ایسا انسان اپنے کھانے کی طرف بغور نظر کرے یہ گول مول روٹی یا چاولوں کی رکابی کہاں سے آئی وہ کیا بتائے گا ہم (اللہ) ہی بتاتے ہیں کہ زمیندار جب دانہ زمین میں ڈال چکا اور اس کا کام ختم ہوگیا تو ہم (اللہ) نے اوپر سے مینہ کا پانی ڈالا پھر اس کے ساتھ زمین کو پھاڑا پھر اس میں وہ دانے پیدا کئے جو یہ ناشکر انسان اس وقت کھا رہا ہے اور اسی پانی کے ساتھ ہم نے انگور اور ہر قسم کی سبزیاں انسانوں اور حیوانوں کے کھانے کے لائق اور زیتوں کا درخت جس سے تیل بھی نکلتا ہے اور کھجوریں اور گھنے گھنے باغ اور ہر قسم کے میوہ جات اور جانوروں کے لئے چارہ پیدا کیا یہ کیوں کیا تمہارے گزارے کے لئے اور تمہارے مویشیوں کے گذارے کے لئے اتنے احسانات اور انعامات پا کر بھی یہ مغرور انسان اللہ کی طرف نہیں جھکتا