سورة المعارج - آیت 1

سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ایک سوال (١) کرنے والے نے اس عذاب کے جلد آنے کا سوال کیا ہے جو واقع ہونے والا ہے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔4) ایک پوچھنے والے نے اس عذاب کا حال پوچھا ہے جو بعد از موت کافروں پر آنے والا ہے جس کو ہٹانے والا اللہ صاحب کمالات عالیہ کے سوا کوئی نہیں۔ فرشتے اور روح بقا اور ثبات میں اسی کی طرف چڑھتے یعنی رجوع کرتے ہیں وہ پوچھنے والا بطور استہزا پوچھتا ہے کہ وہ عذاب کب ہوگا اس کو سمجھنا چاہیے کہ وہ عذاب اس دن میں ہوگا جس کی مدت پچاس ہزار سال بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ شان نزول :۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب عذاب الٰہی سے ڈرایا تو کفار نے پوچھا کہ یہ عذاب کس کو ہوگا۔ ان کے حق میں یہ سورۃ نازل ہوئی۔ (خازن) اس آیت کا ترجمہ بہت مشکل ہے بطور نمونہ ہم چند ترجمے نقل کرتے ہیں ناظرین ان کو ملاحظہ کریں کہ مترجمین کو کتنی دقتیں پیش ہیں۔ فارسی :۔ ” طلب کرد طلب کنندہ عقوبتے برکافراں فردد آئندہ نیست اور اہیچ بازد ارندہ فرود آئندہ از جانب اللہ مرتبہ کہ برآں صعود کردہ شود بالامیروند فرشتگان وروح نیز بسوئے اللہ عقوبت فردد آئندہ برکافراں در روزے کہ ہست مقدار آں پنجاہ ہزار سال (حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہٗ) تشریح :۔ ” اس ترجمہ میں من او فی کے واقعہ کے متعلق کہا گیا ہے “ اردو ترجمہ :۔ ” مانگا ایک مانگنے والے نے عذاب بڑنے والا منکروں کے واسطے کوئی نہیں ہٹانے والا اللہ کی طرف سے چڑھنے درجوں کا صاحب اس کی طرف فرشتے اور روح اس دن میں جس کا لنبائو پچاس ہزار برس ہے۔“ (شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ) تشریح :۔ اس ترجمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ من اللہ کو واقع کے اور فی کو تعرج کے متعلق کیا گیا ہے۔ ترجمہ نذیریہ :۔ ” اللہ جو آسمان کی سیڑھیوں کا مالک ہے جن کی راہ فرشتے اور جبرئیل اس کی راہ چڑھتے ہیں اس کے حکم سے قیامت کے دن جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا کافروں کو عذاب ہونا ہے اور کوئی اس کو ٹال نہیں سکتا۔ تشریح :۔ اس میں فی یوم متعلق واقع کے کیا گیا ہے۔ ترجمہ شیعہ :۔ ” ایک سوال کرنے والے نے بڑے درجوں والے اللہ سے ایسے عذاب کا سوال کیا جو کافروں کے لئے واقع ہوتا رہتا ہے اور اس کا دفع کرنے والا کوئی نہیں ہوسکتا فرشتے اور روح اس کے حضور میں حاضر ہونے کے لئے ایک ایسے دن میں جس کا اندازہ پچاس ہزار برس ہوگا چڑھ جائیں گے۔“ (ترجمہ مشہور بنام مولوی مقبول احمد لکھنوی) تشریح :۔ اس میں فی یوم۔ تعرج کے متعلق کیا گیا ہے۔ ترجمہ اشرفی :۔ ایک درخواست کرنے والا اس عذاب کی درخواست کرتا ہے جو کہ کافروں پر واقع ہونے والا ہے جس کا کوئی دفع کرنے والا نہیں جو اللہ کی طرف سے واقع ہوگا جو سیڑھیوں کا مالک ہے فرشتے اور روحیں اس کے پاس چڑھ جاتی ہیں۔ ایسے دن میں ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔“ (از مولوی اشرف علی صاحب تھانہ بھون) تشریح :۔ اس میں فی یوم کو واقع کے متعلق کیا گیا ہے۔ جیسے شاہ ولی اللہ صاحب نے کیا۔ ان تراجم کا باہمی اتنا اختلاف آئت کے مشکل تریں ہونے پر دلالت کرتا ہے جس کے حل کرنے پر ہر ایک مترجم نے اپنی توجہ صرف کی۔ شکر اللہ سعیہم۔ منہ