سورة النسآء - آیت 36

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اللہ کی عبادت (43) کرو، اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اور رشتہ داروں، اور یتیموں، اور مسکینوں، اور رشتہ دار پڑوسی، اور اجنبی پڑوسی اور پہلو سے لگے ہوئے دوست، اور مسافر، اور غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ، بے شک اللہ اکڑنے والے اور بڑا بننے والے کو پسند نہیں کرتا۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(36۔43) اور اللہ کی عبادت میں مشغول رہو کہ تمہارے کہنے کا بھی لوگوں کو اثر ہو اور بہیچ وجہ اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کیا کرو جیسا کہ انہوں نے تم کو ابتدا سے پرورش کیا نہ صرف ماں باپ سے بلکہ قریبی رشتہ داروں یتیموں مسکینوں نزدیک اور دور کے پڑوسیوں سے اور ساتھ والوں سے خواہ گاڑی میں چند منٹ تک تمہارے ساتھی ہوں اور مسافروں اور غلاموں سے بھی احسان کیا کرو کیونکہ توفیق ہوتے مخلوق سے احسان نہ کرنا ایک طرح سے تکبر ہے اور اللہ تعالیٰ متکبروں اترانے والوں سے محبت نہیں کیا کرتا یعنی خیررسانی سے بخل کرنا بتاتے ہیں مثلاً اگر کوئی ان سے کچھ طلب کرے تو دینا درکنار اس کے آگے اپنے آپ کو ایسا محتاج بن کر دکھاتے ہیں کہ گویا اللہ کے دئے ہوئے فضل مال ودولت عیش و آرام کو چھپاتے ہیں جو ایک قسم کی سخت ناشکری ہے۔ پڑے کریں اور یہ بھی سن لیں کہ ہم نے ایسے ناشکروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے جیسا کہ یہ لوگ دنیا میں اپنی ذلت ظاہر کرتے ہیں ویسے ہی قیامت میں ذلیل وخوار ہوں گے اور انہیں کے بھائی ہیں وہ لوگ جو لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتے ہیں اور اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور قیامت کے دن کو نہیں مانتے کہ امید نیک جزا کی رکھیں بلکہ شیطان نے ان کو سخت گرداب میں پھسا رکھا ہے کیوں نہ ہو جس کا شیطان دوست بنے تو پھر اس کے ایمان کی خیر کہاں اس لئے کہ وہ بہت برا دوست ہے یارانہ گا نٹھ کر فریب دیتا ہے بھلا ان کا کیا حرج تھا کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کو جیسا کہ وہ واحد لاشریک ہے مان لیتے اور ساتھ ہی اس کے قیامت کے دن پر ایمان لاتے اور اس خیال سے کہ اللہ تعالیٰ سب کاموں کا بدلہ دے گا اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے تو ضرور ہی ان کو بدلہ ملتا اس لئے کہ اللہ ان کو خوب جانتا ہے علاوہ اس کے اللہ تعالیٰ کسی پر ایک ذرہ بھر ظلم نہیں کرتا اگر ذرہ جتنی بھی نیکی ہوگی تو اسے بھی اپنی مہربانی سے دگنا کردے گا اور اپنے پاس سے علاوہ اس نیکی کے فعل اخلاص کامل پر بڑا بدلہ دے گا بھلا یہ ریا کار مکار اللہ تعالیٰ کے منکر جو دنیا میں لوگوں کے دکھانے کو کام کرتے ہیں جہاں ان کے دل کا کھوٹ لوگوں کے دل سے چھپارہتا ہے پھر قیامت کے روز ان کا کیا حال ہوگا جب ہم ہر ایک جماعت میں سے ایک ایک گواہ لاویں گے اور تجھ کو بھی ان منکروں مشرکوں۔ اور ریاکاروں پر گواہ بنا کر لاویں گے اس دن ان کافروں اور رسولوں کے نافرمانوں کی آرزو ہوگی۔ کاش ہم زمین میں دبائے جاتے اس قدر ذلت کا باعث یہ ہوگا کہ گواہوں کی گواہی سے جب راز عیاں ہوجائیں گے اور خود بھی اللہ سے کچھ نہ چھپاسکوں گے مناسب بلکہ واجب تو یہ تھا کہ ایسی ریاکاری کرتے ہوئے اللہ سے جو ان کے دلوں کے حال سے واقف ہے حیا کرتے کیونکہ حیا کی صفت اللہ کو نہایت پسند ہے جو لوگ اس سے حیا کرتے ہیں وہی انجام کار فلاح یاب ہوں گے جب ہی تو مسلمانوں کو حیاداری سکھاتا ہے کہ مسلمانو ! اللہ کے خوف سے نشے کی حالت میں اس کے حضور میں نماز کے قریب نہ جایا کرو جب تک کہ اپنی بات کا مطلب نہ سمجھو (شان نزول :۔ (ولا تقربوا الصلوۃ) شراب کی حرمت سے پہلے بعض صحابہ (رض) نے مستی میں نماز پڑھنی شروع کی تو سورۃ کافرون میں لا اعبد کی جگہ اعبد پڑھ دیا جس سے معنے دگرگوں ہوگئے اس سے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم اور نہ بے غسلی کی حالت میں نماز پڑھو جب تک غسل نہ کرلو لیکن مسافری کی حالت میں ہو تو اس کا حکم آگے آتا ہے وہ یہ ہے اگر تم بیمار ہو یا سفر میں جارہے ہویا کوئی تم میں سے پاخانہ پیشاب پھر کر آیا ہو یا تم نے عورتوں سے صحبت کی ہو پھر ان سب صورتوں میں تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلیا کرو طریقہ اس تیمم کا یہ ہے کہ منہ اور ہاتھوں کو مٹی مل لیا کرو جس سے تمہاری اللہ کے حضور میں خاکساری پائی جائے اور اس خاکساری سے عفو کی امید رکھو بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا بخشنے والا ہے