مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اللہ نے اپنے رسول کو دیہات والوں سے جو مال دلوایا، تو وہ اللہ کے لئے ہے، اور رسول کے لئے، اور رشتہ داروں، اور یتیموں، اور مسکینوں اور مسافر کے لئے ہے، تاکہ وہ مال تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گھومتا رہ جائے، اور رسول تمہیں جو دیں اسے لے لو، اور جس چیز سے وہ تم کو روک دیں اس سے رک جاؤ، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے
سنو ! یہ جو کہا گیا کہ اللہ نے اپنے رسول پر انعام واحسان کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس سارا مال رسول کی ملک ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ جو کچھ ! اللہ نے بے لڑے بھڑے ان بستیوں کے رہنے والوں سے اپنے رسول کو عطا کیا ہے وہ حقیقت میں اللہ کا اور اس کے رسول کا اور رسول اور مجاہدین کے قرابت داروں کا یتیموں کا‘ مسکینوں کا‘ غریب مسافروں کا حق ہے۔ یہ تقسیم اس لئے ہے کہ یہ مال تم میں سے مالدار اغنیا ہی میں دائر سائر نہ رہے بلکہ غربا کو بھی حصہ رسدی پہنچے اور سنو ! باوجود استحقاق مذکور کے جو کچھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیں از قسم مال ہو یا از قسم حکم وہ قبول کیا کرو اور جس سے روکے اس سے رک جایا کرو باوجود استحقاق کے حسب مصلحت و ضرورت تقسیم کرنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد ہے پس تم مسلمان اس اصول شرعی کا خیال رکھا کرو اور ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے