وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِن نِّسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِّن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا ۚ ذَٰلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرلیں، پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع (٣) کرنا چاہیں تو قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگانا چاہیں، ایک غلام آزاد کرنا ہوگا، مسلمانو ! تمہیں اس کی نصیحت کی جاتی ہے، اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے
پرانی رسم کے مطابق جو ان لوگوں کے منہ سے ایسا نکل جائے وہ معافی کے قابل ہے مگر آئندہ کو یہ قانون ہے کہ جو لوگ اپنی عورتوں کو مائوں سے تشبیہ دیتے ہیں پھر وہ اپنے کہے کے خلاف ! کرنا چاہتے ہیں یعنی ان عورتوں کو مثل بیویوں کے رکھنا چاہتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں پر واجب ہے کہ آپس میں بیوی خاوند کی طرح ملنے سے پہلے ایک غلام آزاد کریں۔ اس امر کی تم کو نصحتے کی جاتی ہے تاکہ تم آئندہ کو ایسی بات نہ کہو اور ایسی حرکت اور ایسا فعل نہ کرو اور جو کچھ تم لوگ کرتے ہو اللہ کو اس کی سب خبر ہے۔ (! یہ ترجمہ اور تفسیر عام رائے کے مطابق ہے۔ میری رائے اس بارے میں یہ ہے کہ یعودون لما قالوا کے معنی ہیں ایک دفعہ مان کر پھر دوبارہ کہنے پر یہ سزا ہے ایک دفعہ پر نہیں کیونکہ عود لما قالوا کے معنی محاورہ عرب کے مطابق یہی ہیں کہ اپنی کہی ہوئی بات کو دوبارہ کہنا۔ یا کئے ہوئے فعل کو دوبارہ کرنا۔ چنانچہ قرآن مجید میں یہ محاورہ بکثرت ملتا ہے۔ منجملہ یہ آیت ہے یعظکم اللہ ان تعودوا لمثلہ۔ الم تر الی الذین نھوا عن النجوی ثم یعودون لما نھوا عنہ وغیرہ اس قسم کی مثالیں خود قرآن مجید میں بہت ہیں جہاں عود لما آیا ہے ان سب مقامات میں یہی معنی ہیں کہ ایک کام کرکے دوبارہ وہی کرنا پس آیت موصوفہ کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ ایک دفعہ ” ماں“ کہہ کر باز نہیں رہتے۔ دوبارہ پھر کہتے ہیں ان کی یہ سزا ہے۔ ان معنی سے پہلی دفعہ کا قول معاف ہے مگر عامہ مفسرین کی تفسیر سے پہلی دفعہ بھی معاف نہیں۔ ناظرین کو جو اچھا معلوم ہو۔ اختیار کریں (منہ)