لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ
ہم نے یقیناً اپنے رسلووں کو کھلی نشانیوں (٢٣) کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتابیں اور میزان اتارا، تاکہ لوگ عدل و انصاف قائم کریں، اور ہم نے لوہا پیدا کیا اس میں بڑا زور اور لوگوں کے لئے بہت سے فوائد ہیں، اور تاکہ کون (جہاد کرکے) بن دیکھے اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے، بے شک اللہ قوت والا، زبردست ہے
(25۔29) یہی تعلیم دے کر ہم نے اپنے رسول کھلے نشانات دے کر بھیجے تھے اور ان کے ساتھ احکام کی کتاب اتاری۔ جس میں عبادت کے احکام تھے اور خاص کر تمدنی احکام کا ترازو یعنی مجموعہ دستور عدل وانصاف اتارا تاکہ لوگ انصاف کو قائم کریں یعنی لین دین قرض دام اداء امانت کے احکام بھی اللہ نے نازل کیے تاکہ لوگ ان پر عمل کریں۔ اور جو لوگ سرکشی کریں ان کی سزا دہی کے لئے سامان جنگ بنانے کو لوہا پیدا کیا جس میں بڑا سامان جنگ ہے اور لوگوں کے لئے بڑے بڑے منافع ہیں۔ کوئی چیز دنیا میں قابل استعمال نہیں جس کو لوہا نہ لگا ہو۔ یہ منافع کیا کم ہیں اس سے غرض یہ ہے تاکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نمایاں کر دے جو اس کے اور اس کے رسولوں کے دین کی غیب میں مدد کرتے ہیں یعنی جہاد میں نیزہ تلوار بندوق توپ وغیرہ استعمال کرتے ہیں یہ خیال دل سے نکال دینا چاہیے کہ اللہ کو اس کی ضرورت ہے ہرگز نہیں اللہ تو بذات خود قوی اور غالب ہے یہی بات سمجھانے کو ہم نے حضرت نوح اور ابراہیم کو رسول بنا کر بھیجا اور ان کی ذریت کو کتاب عطا کی یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذریت میں نبی پیدا کئے جو باقی اولاد نیز اور لوگوں کو ہدایت کریں پھر بعض ان میں سے ہدایت یاب ہوئے۔ صلاحیت پر آئے اور بہت سے ان میں بدکار رہے مطلب یہ ہے کہ قوم بنی اسرائیل مختلف طبقوں کی تھی۔ بعض نیک تھے بعض بد۔ جیسے اور قومیں بھی ہوتی ہیں پھر ہم (اللہ) نے ان رسولوں کے پیچھے اور رسول بھیجے اور ان کے بعد اخیر میں عیسیٰ بن مریم کو رسول بنا کر بھیجا۔ اور لوگوں کو ہدایت کے لئے ہم نے اسے کتاب انجیل دی تاکہ لوگوں کو وعظ ونصیحت کرے اور اللہ کے احکام سنائے اور جو لوگ اس حضرت مسیح کے پیرو ہوئے تھے ان کے دلوں میں ہم نے رحم اور نرمی پیدا کی تھی وہ عادتا نرم تھے اور نیک سلوک کرنے والے۔ مگر اس نیکی اور نرمی میں ان کے خلاف یہاں تک ترقی کر گئے کہ انہوں نے دنیا کو بالکل ترک کردیا اور رہبانیت گوشہ نشینی اختیار کرلی جس کا ہم اللہ نے ان کو حکم نہ دیا تھا۔ بھلا ہم کیسے اس کا حکم دیتے جبکہ دنیا کو آباد رکھنا ہمیں منظور ہے۔ پھر اس بربادی کی تعلیم کیسے دیتے؟ مگر انہوں نے اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کو اسے اختیار کیا پھر انہوں نے اس کے لائق اس کی رعایت ملحوظ نہ رکھی۔ بلکہ آج کل کے خشک فقراء کی طرح محض ظاہری زاہد نما بنے رہے۔ درحقیقت اس کی حقیقت کھو بیٹھے۔ پس ان میں سے جو اصل ایمان پر مضبوط رہے تھے ان کو ہم نے ان کا پورا بدلہ دیا۔ جو بہت کم تھے اور بہت سے ان میں نافرمان تھے۔ اس لئے تم مسلمانوں کو ہدایت کی جاتی ہے اے مسلمان ایماندارو ! اللہ سے ڈرتے رہنا اور اس کے رسول محمد رسول اللہ پر مضبوط ایمان رکھنا۔ جو کسی کے بہکانے کے اثر سے زائل یا کمزور نہ ہو۔ یعنی رسول کے بتائے ہوئے احکام کے خلاف نہ چلنا۔ دین میں کسی قسم کی ایجاد نہ کرنا۔ اللہ تم کو اپنی رحمت سے ڈبل حصہ دے گا۔ اور تمہارے لئے تمہارے دلوں میں نور پیدا کرے گا۔ جس کے ساتھ زندگی میں چلتے پھرو گے یعنی جو مرحلہ تم کو پیش آئے گا وہ نور تم کو اس میں راہ نما ہوگا۔ اور اللہ تم کو تمہاری غلطیاں بخش دے گا۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ تاکہ اہل کتاب یہود ونصاریٰ جو تم مسلمانوں کو مستحق رحمت الٰہیہ نہیں جانتے وہ تمہاری عزت اور ترقی دیکھ کر سمجھ لیں کہ اللہ کے فضل میں سے کسی چیز پر ان کو اختیار نہیں ہے ورنہ وہ تم کو کبھی نہ لینے دیتے اور یہ بھی جان لینا کہ فضل اور رحمت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے۔