اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
تم سب جان لوکہ بے شک دنیا کی زندگی (١٩) کھیل، تماشہ، زیب و زینت، آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا، اور مال و دولت میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا ہے، اس کی مثال اس بارش کی ہے جس سے اگنے والا پودا محض دھوکے کا سامان ہے
یہ لوگ دنیا کے کھیل تماشا میں منہمک ہیں دنیاوی مشاغل کے سوا کسی دوسری طرف ان کو توجہ نہیں۔ حالانکہ دنیا کی زندگی اور اس کا عیش وعشرت محض دودھ کا ایک ابال ہے جس کو بہت جلد فنادا منگیر ہے پس تم مسلمان یقینا جان رکھو کہ دنیا کی زندگی بلحاظ تفریح کے کھیل تماشہ ہے اور بلحاظ ظاہری حسن کے زیب وزینت ہے اور بلحاظ مقابلہ کے ایک کا دوسرے پر فخر کرنا۔ مال اور اولاد میں بڑائی کا اظہار کرنا کہ میرے مکان اتنے ہیں۔ میرے باغ اتنے ہیں۔ میری اولاد اتنی ہے اس کی کوئی نہیں۔ یہ سب کچھ دنیا دار لوگ کرتے رہتے ہیں جو تم سب دیکھتے اور کرتے ہو۔ آخر کب تک؟ دو نہیں چار۔ چار نہیں آٹھ۔ بقول یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں جانور اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے ایک روز ان اموال کا اور ان اموال والوں کا نام ونشان نہ ہوگا۔ پس اس دنیا کی مثال بادل کی سی ہے جس سے سبزیاں پیدا ہوتی ہیں یعنی وہ خود سبزباں ہی دنیا کی مثال ہے جو لہلہاتی ہیں اور زمینداروں کو ان کی انگوریاں بہت بھلی لگتی ہیں۔ پھر وہ سوکھ کر خشک ہوجاتی ہیں پھر تم ان کو پیلی پڑی دیکھتے ہو۔ پھر وہ ٹوٹ کر تنکا تنکا ہوجاتی ہیں۔ آخر کار وہی زمین جو ابھی کل کے روز سر سبز نظر آتی تھی آج چٹیل میدان ہو رہی ہے۔ یہ ہے دنیا کی زندگی کا مختصر حال کہ صبح کچھ ہے تو شام کچھ۔ اس لئے دانا لوگ اس دنیا کو اپنا اصل گھر نہیں جانتے بلکہ اس کو آخرت کے لئے مثل کھیتی کے جانتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ آخرت میں بدعملی پر سخت عذاب ہے یا نیک عملی پر اللہ کی طرف سے بخشش اور رضا ہے اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکہ کا سامان ہے جو اس کی ظاہری سطح پر فریفتہ ہوا۔ وہ تباہ ہوا۔