يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُم بِسُورٍ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ
جس دن منافق مرد اور عورتیں مومنوں سے کہیں گے (٣) کہ ذرا ہم انتظار کرلو، تاکہ ہم تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں تو ان سے کہا جائے گا کہ تم پیچھے واپس جاؤ، کوئی اور نور تلاش کرو، پھر دونوں جماعتوں کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی جس کا ایک ہی دروازہ ہوگا، اس کے اندر رحمت ہوگی، اور اس کے باہرکی طرف عذاب
جس روز ایسا ہوگا اس روز منافق مرد اور عورتیں جو بوجہ کفر کے اندھیرے میں ہوں گے اور بوجہ ظاہری کلمہ گوئی کے مؤمنوں کے ساتھ ہوں گے اس لئے وہ ایماندار مسلمانوں کو جب وہ جنت کی طرف جا رہے ہوں گے کہیں گے میاں ذرا ہمارا بھی انتظار کرو۔ ہم تمہاری روشنی سے کچھ فائدہ اٹھائیں آپ لوگ اگر آگے نکل گئے تو ہم اندھیرے میں رہ جائیں گے ہمارے تھوڑے سے استفادہ کرنے سے تمہارا کیا نقصان۔ مؤمن تو ان کے حق میں بخل نہ کریں گے لیکن اللہ کو چونکہ انکو یہ فائدہ پہنچانا منظور نہ ہوگا اس لئے فرشتوں کی معرفت ان کو کہا جائے گا۔ یہاں بات اصل یہ ہے کہ یہاں جو کسی کو روشنی ملی ہے اس کا تیل بتی یہاں کی نہیں بلکہ دنیا ہی سے لائے ہیں یعنی اعمال صالحہ کا بدلہ ہے پس تم پیچھے کو پھر جائو یعنی یہاں تو یہ چیز نہیں مل سکتی تم سے ہوسکے تو تم پیچھے کو دنیا میں چلے جائو۔ پھر وہاں جا کر نور تلاش کرو یعیں نیک عمل کرو۔ تو یہاں تمہیں نور خودبخود مل جائے گا۔ پس یہ سن کر وہ سمجھیں گے کہ واقعی پیٹھ کی طرف منہ پھیرنے سے شائد نور ملتا ہو۔ پس وہ ذرہ سی ادھر سے روگردانی کریں گے کہ فورا ان کے اور مؤمنوں کے درمیان ایک دیوار بنائی جائے گی۔ اس میں ایک دروازہ ہوگا۔ جس کے اندر کی طرف جدھر مؤمن ہوں گے رحمت ہوگی اور باہر کی جانب جدھر منافق ہوں گے عذاب ہوگا۔ غرض مؤمنوں اور کافروں میں خوب امتیاز ہوجائے گا۔