وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا
اور تمہاری عورتوں میں سے جو زنا (22) کا ارتکاب کریں، تو ان پر چار مرد گواہ لاؤ، اگر وہ گواہی دیں تو انہیں گھروں میں بند کردو، یہاں تک کہ ان کی موت آجائے، یا اللہ ان کے لیے کوئی اور سبیل نکال دے
(15۔23) احکام میراث کے بعد کچھ احکام تہذیب اور شائستگی بھی سنو ! بڑا بھاری تہذیب کے بگاڑنے کا ذریعہ زنا ہے اس کے لئے سب سے پہلے عورتوں کا انتظام ضروری ہے پس جو تمہاری عورتوں میں سے زنا کریں ان پر اپنے لوگوں (مسلمانوں) میں سے بد کاری دیکھنے والے چار گواہ مقرر کرلیا کرو پھر اگر وہ قاضی کے سامنے گواہی دے دیں تو بالفعل ان کی یہ سزا ہے کہ ان کو اپنے گھروں میں بند رکھو بالکل کہیں جانے نہ دیں یہاں تک کہ وہ مر جائیں یا اللہ ان کے لئے کوئی حکم بتائے کہ جو متعلق سزا ہو جسے بھگت کر پھر وہ چھوٹ جائیں چنانچہ وہ حکم آگیا الزانیۃُ والزانی فاجْلِدوا کلَّ واحِدِِ منھما مِاَتہَ جَلْدَۃٍچونکہ صرف عورتوں کے رکنے سے زنا بند نہیں ہوسکتا بلکہ ایک اور ذریعہ بھی زانیوں کے لئے موجود ہے کہ لڑکوں سے بد کاری کریں سو اس کی بابت بھی سنو کہ جو دو مرد تم میں سے آپس میں وہی لوطیوں کا کام کریں اور وہ بشہادت ثابت بھی ہوجائے تو ان کو تکلیف پہنچائو اور زبانی بھی لعن طعن کرو کہ تم نے بہت بے جا کیا ہے جس سے تمہارے اعتبار اور نیک بختی میں فرق آگیاجب ہر طرف سے ان کو برا سننا ہوگا تو خود ہی اس فعل قبیح سے باز آجائیں گے پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنے اعمال درست کریں تو ان کا پیچھا چھوڑ دو اللہ تعالیٰ بھی ان کو معاف کرے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے یہ بھی نہیں کہ ہر ایک کی توبہ قبولیت کو پہنچ جاوے بلکہ صرف انہی لوگوں کی توبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہے جو غلطی سے برے کام کرتے ہیں پھر جلدی سے توبہ کرتے ہیں ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے اللہ تعالیٰ کو سبھی کچھ معلوم ہے کہ کون دل کے اخلاص سے توبہ کرتا ہے اور کون نہیں کرتا اور وہ بڑی حکمت والا ہے اس قبول توبہ میں بھی اس کی کئی حکمتیں ہیں اور ان لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو برے کام کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آتی ہے تو مرتے وقت عذاب الہی دیکھ کر کہنے لگتا ہے کہ میں اب توبہ کرتا ہوں اور نہ ان لوگوں کی توبہ قبول ہوتی ہے جو کفر کی حالت میں مرتے ہیں اور عذاب دیکھ کر کہنے لگتے ہیں کہ ہم نے توبہ کی۔ ان کی توبہ کہاں ان کے لئے تو ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے ایک اور امر بھی زنا کے پھیلنے کا بڑا بھاری ذریعہ ہے یعنی عورت مرد کی نا رضامندی جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ابتدا میں عورتوں کو مجبور کر کے نکاح کرایا جاتا ہے جیسا کہ عرب میں عموماً اور ہندوستاں کی بعض قوموں میں خصوصاً دستور ہے کہ جب ایک بھائی مرتا ہے۔ تو اس کے وارث یوں سمجھتے ہیں کہ یہ عورت بھی ہمارے ورثہ کی چیز ہے جبراً اور قہراً خود نکاح کرلیتے ہیں یا اپنی مرضی سے کسی سے کچھ لے کر کرادیتے ہیں اور وہ بیچاری بوجہ لحاظ خاندان کے خاموش رہتی ہے مگر آخر کار دل کی رنجش کو کون دور کرے جس کا کبھی نہ کبھی ظہور ہو ہی جاتا ہے اسی لئے تم کو اے مسلمانو حکم ہوتا ہے کہ تم کو جائز نہیں کہ زبردستی سے عورتوں کے مالک بن جائو (شان نزول :۔ (لایحل لکم ان ترثوا النسائ) مشرکین عرب کا دستور تھا اگر ایک بھائی مرتا تو اس کے وارث جہاں اس کی جائداد تقسیم کرتے اس کی بیوی بھی جائداد میں شمار کر کے اس پر کپڑا ڈال دیتے پھر جیسا سلوک چاہتے اس عورت سے کرتے خواہ اپنے نکاح میں لاتے یا کچھ وصول کر کے دوسری جگہ نکاح کردیتے اس فعل شنیع سے روکنے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل منہ۔) گو وہ ناراض ہوں مگر زور دیکر بھی ان سے نکاح کرلو یا کسی سے بغیر مرضی ان کے کرادو اور نہ ان کو بے جا تنگ کرکے روک رکھو کہ کسی طرح سے دیے ہوئے مہر میں سے کچھ واپس لے لو ہاں جب وہ کھلی بے حیائی (زنا وغیرہ) کریں تو اس صورت میں وہ مہر کی مستحق نہیں عقد نکاح میں عفت کا مضمون داخل ہے پس تم ان سے بطور خلع کچھ لے کر چھوڑ دو یا نقد لے لو تو جائز ہے اور بھلی عورتوں سے موافق دستور کے نباہ کرو پھر اگر تم ان کو کسی وجہ (بد شکل وغیرہ) سے ناپسند کرو تو بھی نباہ کرو شائد اللہ تعالیٰ تمہاری ناپسند چیز میں تمہارے لئے بہت سی بہتری کردے کہ ان سے کوئی اولاد صالح پیدا ہوجائے جو تمہاری فلاح دارین کے لئے کافی ہو اور ایک ضروری حکم سنو ! اگر ایک بیوی کو چھوڑ کر دوسری بیوی سے نکاح کرنا چاہو تو پہلی بیوی کو بہت سا مال دے چکے ہو پھر بھی اس مال میں سے کچھ نہ لیا کرو کیا ناحق اور صریح ظلم سے لینا چاہتے ہو؟ بھلا کیونکر اس کو لیتے ہو حالانکہ خاوند بیوی ایک دوسرے سے علیحدہ مل چکے ہیں اور وہ عورتیں تم سے مضبوط عہد بھی لے چکی ہیں کہ ہمارا تمہارا ہمیشہ کا نباہ ہوگا چھوڑتے تو تم ہو اپنی مرضی سے ان کا کیا قصور ہاں یہ بھی نہیں کہ ہر ایک عورت کو نکاح میں لے آؤ بلکہ یہ ضروری ہے کہ اپنے باپ کی وہ بیاہی ہوئی عورتوں سے نکاح مت کرو ّشان نزول :۔ (ولا تنکحوا ما نکح ابآء کم) مشرکین عرب میں عام دستور تھا کہ سوتیلی ماں سے نکاح کرنا معیوب نہیں جانتے تھے چنانچہ ایک شخص قیس نامی نے حضرت اقدس کے زمانہ میں بھی بعد انتقال باپ کے سوتیلی ماں کو نکاح کا پیغام دیا اس نے کہا کہ میں آنحضرت صلعم سے مشورہ کرلوں۔ اس واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل منہ۔) مگر جو گذرچکا یعنی نزول قرآن سے پہلے جو عرب کے دستور سے لوگ کیا کرتے تھے سو معاف ہے۔ آئیندہ ایسا نہ کرنا اس لئے کہ یہ بڑا بے حیائی کا کام اور غضب کی بات ہے اور برا طریق ہے علاوہ اس کے تمہاری مائیں بیٹیاں بہنیں پھوپھیاں خالائیں بھتیجیاں بھانجیاں دودھ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا۔ تمہاری دودھ کی بہنیں۔ تمہاری ساسیں اور تماری بیویوں کی مائیں جن سے تم صحبت کرچکے ہو پچھلی لڑکیاں جو اکثر اوقات تمہاری پرورش میں ہوں یہ سب تم پر حرام ہیں۔ ہاں اگر تم نے ان بیویوں سے جماع نہیں کیا تو تم پر ان منکوحہ کے بعد ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں گناہ نہیں اور تمہارے صلبی بیٹیوں کی بیویاں اور دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا بھی حرام ہے مگر جو گذرا (سو معاف ہے) کیونکہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے اور خاوندوں والی عورتیں بھی حرام ہیں مگر جن کے تم جنگ کی لوٹ میں مالک ہوئے ہو وہ بعد انقضائے عدت ایک ماہ تم کو حلال ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے حکم ہیں تم پر اور ان عورات مذکورہ بالا کے سوا عورتیں جن سے تم بذریعہ مال زر مہر نکاح کرنا چاہو وہ منکوحہ تم کو حلال ہیں بشرطیکہ گھر باری بننے کی نیت سے ہو نہ صرف چند روزہ مستی نکالنے کو پھر جتنے مال کے عوض تم نے ان سے تعلق کیا ہو ان کا حق پورا مقررہ شدہ حوالے کرو اور بعد مقرر کرلینے مہر کے بھی کسی مقدار کم یا زائد پر تم خاوند بیوی آپس میں راضی ہوجاؤ تو مضائقہ اور گناہ کی بات نہیں بے شک اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کبھی خاوند بیوی خود ہی اپنی خوشی سے ایسا کیا کرتے ہیں اور بڑی حکمت والا ہے جو باہمی تعلقات میں سختی کا حکم نہیں دیتا