وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی صرف اللہ کے لیے ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
(189۔200)۔ اس لئے کہ تمام آسمان اور زمین کا ملک تو اللہ کا ہے پھرجائیں تو کہاں جائیں کتنا ہی اپنے آپ کو بچانا چاہیں اس کے عذاب سے کسی طرح چھوٹ نہیں سکیں گے وہ اللہ ہر کام پر قدرت رکھتا ہے جہاں ہونگے وہاں ہی ان کو عذاب پہنچائے گا اگر اس کی قدرت کا ثبوت چاہیں تو آسمان اور زمین کی پیدائش پر غور کریں کیونکہ آسمان و زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے آگے پیچھے آنے میں عقلمندوں کے لئے کئی ایک نشان ہیں شان نزول :۔ (اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ) فضول جھگڑوں سے منہ پھیر کر اصل مطلب کی طرف توجہ دلانے کو یہ آیت نازل ہوئی (معالم التنزیل) تم جانتے ہو عقل مند کون ہیں ہم بتا تے ہیں کہ جو کھڑے بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے ہوئے اللہ ہی کو یاد کرتے رہتے ہیں اور زمین و آسمان کی پیدائش میں غور و فکر کرتے رہتے ہیں اور اس میں عجیب عجیب حکمتیں پاتے ہیں نہ کہ دنیاوی علمداروں کی طرح کہ جن کو بجز دنیاوی فوائد کے کسی طرح کا خیال ہی نہیں ان عقلمندوں کا خیال اصل بات کی طرف ہوتا ہے اسی لئے تو وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے مولا تو نے اس عالم کو عبث نہیں بنایا عبث فعل کرنے سے تو پاک ہے بلکہ اس میں کئی حکمتیں اور غایتیں ہیں منجملہ یہ ہے کہ جو ان میں سے تیری قدرت کا ثبوت پاکر تجھ کو مالک الملک قادر وقیوم جانیں گے ان پر تیرا انعام و اکرام اعلی درجہ کا ہوگا اور جا اپنے فوائد دنیاوی مثلاً جہاز رانی کے لئے ان میں غور کریں گے اور تیری توحید اور اقرار ربوبیت سے بے غرض رہیں گے تو ان کو عذاب اٹھا نا ہوگا۔ سو تو ہم کو پہلی قسم کے لوگوں سے بنا کر آگ کے عذاب سے رہائی دے اے ہمارے مولا ! جس کو تو بسبب ان کی بد اعمالی کے جہنم میں داخل کرے گا تو سب کے سامنے اس کو ذلیل کرے گا ایسی ذلت جس سے اس کو کبھی نجات نہ ہوگی اور نہ تیرا وعدہ بدلے گا اس لئے کہ تو سچا ہے اور نہ ان ظالموں کا کوئی حمائتی ہوگا جو اس بلا سے چھڑائے اے ہمارے مولا قطع نظر ان دلائل کے جو آسمان اور زمین سے ہم نے سمجھے ہیں ایک اور وجہ بھی ہمارے سامنے کی ہے کہ ہم نے ایک پکارنے والے رسول یا نائب رسول کو ایمان کے لئے پکارتے ہوئے سناکہ لوگو اپنے پروردگار پر ایمان لائو پس اس کو سنتے ہی ہم تجھ پر ایمان لے آئے اے ہمارے مولا چونکہ اس ماننے میں ہماری کوئی دنیاوی غرض نہیں ہے بلکہ محض تیری ہی رضاجوئی منظور ہے پس تو ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری برائیاں ہم سے دور کر دے اور انجام کار ہم کو نیک بختوں کے ساتھ فوت کو جیی اے ہمارے مولا جو تو نے اپنے رسولوں کی معرفت ہم سے وعدہ کیا ہے بعد مرنے کے ہم کو عنائت کیجئیو اور قیامت کے روز ہم کو ذلیل نہ کیجیو ہم تیرے وعدہ کے موافق عزت افزائی کی امید رکھتے ہیں بے شک تو اپنے وعدے خلاف نہیں کیا کرتا پس ان کے دعا کرنے میں دیر نہ ہوئی تھی کہ اللہ نے ان کو جواب دیا کہ تم گھبرائو نہیں بلکہ تسلی رکھو۔ میں ہرگز تم میں سے کسی کا کام ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اس لئے کہ تم سب آپس میں ایک ہی ہو کیا عورتیں اور کیا مرد سب کو ان کے نیک اعمال کا بدلہ دوں گا پس سنو جب لوگوں نے دین کی حفاظت میں اپنا وطن چھوڑا اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور دین کے دشمنوں سے لڑے اور مارے گئے ضرور ان کی برائیاں ان سے دور کر دوں گا اور ان کو ایسے عمدہ باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اللہ کی طرف سے ان کو یہ بد لہ ملے گا اور علا وہ اس کے اللہ کے ہاں اور بھی نیک بدلہ ہے جس سے وہ نہایت محفوظ ہونگے یعنی خوشنودی اللہ تعالیٰ اصل انعام اور اصل عزت تو یہ ہے باقی رہی ظاہری بناوٹ سو چند روزہ ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں یہ آیت اولی الالباب سے یہاں تک کسی واقع کی حکائت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی اور ان کی دعائوں اور اللہ کی قبولیت کی ایک تمثیل ہے اس قسم کی تمثیلات قرآن مجید میں بہت ہیں عباد الرحمٰن والی آیت بھی اسی قسم سے ہے۔ اس قسم کی تفصیلات سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ جس زمانے میں ہوں ان کے ایسا کرنے پر اللہ کی طرف سے یہی برتائو ہوتا ہے۔ والعلم عنداللہ۔ منہ جب ہی تو تجھ کو اے مخاطب کہا جاتا ہے کہ تو کافروں کے جوش وخروش کے ساتھ شہروں میں پھرنے اور ہر قسم کی سوداگری تاروں اور ریلوں کے ایجاد کرنے سے دھوکہ نہ کھائیو کہ اس سے تو ان کے دین کی مقبولیت سجھ کر بےدین بن جائے یہ تو تھوڑا سا دنیا کا اسباب ہے پھر ان کا ٹھکانا جہنم میں ہوگا جہاں ان کو ہمیشہ تک رہنا ہوگا وہ بہت بری جگہ ہے ہاں جو لوگ ان میں سے اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے لئے ایسے عمدہ باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ہمیشہ انہیں میں رہیں گے اللہ کے ہاں سے مہمانی کھائیں گے علاوہ اس کے جو نیک لوگوں کے لئے اللہ کے ہاں موجود ہے وہ سب دنیا سے بہتر ہے اس انعام اکرام کو دیکھ کر بعض اہل کتاب بھی اللہ کو اکیلا مالک الملک مانتے ہیں اور جو کچھ تمہاری طرف نیز ان کی طرف اللہ کے ہاں سے تورات وانجیل اور قرآن اتارا گیا ہے اس کو بھی اللہ سے ڈر کر مانتے ہیں اور اللہ کے حکموں کے عوض دنیا کے تھوڑے پیسے حاصل نہیں کرتے انہی لوگوں کے لئے اللہ کے ہاں بدلہ ہے بے شک اللہ اچھا بدلہ دینے والا ہے شان نزول :۔ (وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ) بعض اخلاص مند لوگ یہود و نصارٰے میں سے اپنا دین چھوڑ کر مشرف باسلام ہوئے۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئیں معالم التنزیل۔ اے مسلمانو ! یہ انعام واکرام اگر حاصل کرنا چاہو تو تکلیفوں پر صبر کیا کرو اور ایک دوسرے کو صبر سکھا یا کرو اور باوجود اختلاف رائے کے آپس میں ملے رہو اور بڑی بات یہ ہے کہ کہ اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم انعام واکرام سے مراد پائو۔ شان نزول :۔ اصبروا مسلمانوں کو تکالیف پر صبر و شکم سکھانے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم