وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
اور ہم نے انسان کو پیدا (١٠) کیا ہے، اور ہم خوب جانتے ہیں کہ اس کے دل میں کیسے خیالات گذرتے ہیں، اور ہم شہ رگ سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں
(16۔38) ان کے دلوں میں جو جو خیالات آتے ہیں ہمیں معلوم ہیں کیونکہ ہم نے ہر انسان کو پیدا کیا ہے اور جس جس قسم کے خیالات اس کے دل میں آتے ہیں ہم خوب جانتے ہیں اور کیوں نہ جانیں ہم تو اس کی شاہ رگ سے بھی قریب تر ہیں یہ سمجھو کہ خود انسان بھی اپنی جان سے اتنا قرب نہیں رکھتا نہ اتنا اس کو اپنا علم ہے۔ جتنا ہم (اللہ) کو اس کا قرب اور علم ہے۔ پھر اس کے حالات اور خیالات سے کیوں واقف نہ ہوں۔ خاص کر اس وقت جب ہمارے بھیجے ہوئے ضبط کرنے والے دو فرشتے (اس کے اقوال وافعال کو) ضبط کرتے جاتے ہیں۔ اس کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے یعنی ہر وقت موجود رہتے ہیں اس وقت وہ انسان جو بھی لفظ بولتا ہے۔ اس کے پاس نگران حال لکھنے والا مستعد تیار ہوتا ہے۔ کیا مجال کوئی لفظ اس کا ضائع جائے۔ جونہی نکلا بس محفوظ ہوا۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ یہ سب کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اور موت کی سختی واقعی شکل میں آئے گی وہمی اور خیالی نہ ہوگی اس وقت موت کے فرشتے اس مرنے والے کو کہیں گے۔ یہ وہ موت ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔ لیکن آخر آج اس کے پھندے میں تجھے پھنسنا پڑا کیا تو نہیں جانتا تھا۔ ؎ گو سلیمان زماں بھی ہوگیا تو بھی اے سلطان آخر موت ہے اور سنو ! مرنے کے بعد قیامت کے روز اٹھنے کے وقت صور میں پھونکا جائے گا یعنی قیامت قائم ہوجائے گی وہی دن ڈراوے کا ہوگا۔ جس سے تم کو انبیاء علیہم السلام کی معرفت ڈرایا گیا تھا اس روز ہر شخص اس میدان قیامت میں آئے گا۔ اس حال میں کہ اس کے ساتھ ایک فرشتہ اس کو چلانے والا اور ایک گواہ ہوگا۔ یہ دونوں وہی ہوں گے جو اس کے دائیں بائیں بیٹھے رہتے تھے۔ اس وقت اس کو کہا جائے گا۔ کہ تو اس دن سے غفلت اور بے پروائی میں تھا۔ لے اب تو ہم نے تیرا پردہ غفلت اس سے اٹھا دیا ہے۔ بس اب تو سب کچھ تیرے سامنے ہے۔ پس تیری نگاہ آج بڑی تیز ہے۔ ذرہ نظر تو اٹھا۔ جو کچھ تو دیکھتا ہے یہ محض وہم ہے۔ یا واقعی وہ تسلیم کرے گا کہ جو کچھ دیکھ رہا ہے یہ سب واقعی ہے۔ کیونکہ اس کو ہر طرف سے اس کا ثبوت ملے گا۔ اور اس کا ساتھی دنیاوی دوست‘ گرو‘ پیر وغیرہ جس نے اسے گمراہ کیا ہوگا۔ فوراً کہے گا کہ حضور یہ ہے اس کا کچا چٹھا جو میرے پاس تیار رہتا تھا۔ اس میں بھی اس کے اعمال کا کافی ذکر ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ شخص واقعی بدکار ہے۔ اس کی پیش دستی اس غرض سے نہ ہوگی کہ اللہ کو کوئی اطلاع دے بلکہ اس غرض سے ہوگی کہ میں چھوٹ جائوں مگر اللہ عالم الغیب کے سامنے ایسی ویسی باتیں کہاں چل سکتی ہیں اس لئے حکم ہوگا اے فرشتو ! سنو ! ہر ایک کافر‘ سرکش‘ مانع خیر‘ حد عبودیت سے بڑھنے والے متکبر بے فرمان اور سیدھے سادھے ایمانداروں کو شک وشبہ میں ڈالنے والے یعنی سیدھے سادھے مسلمانوں کو اسلام اور ایمان سے روکنے والے کو تم جہنم میں ڈالتے جائو۔ جانتے ہو؟ اس حکم سے کون لوگ مراد ہیں ؟ وہ شخص جس نے اللہ کے ساتھ اور معبود بنایا۔ کسی نے بت کو کسی نے قبر کو کسی نے پیر فقیر کو کسی نے اپنے نفس کو پس تم ایسے مشرک کافر سرکش متکبر شخص کو جو اللہ کی توحید خالص سے ہٹا ہو سخت عذاب میں جھونک دو۔ یہ حکم سن کر اس کا گمراہ کن ساتھی سمجھے گا کہ میری بھی خیر نہیں اس لئے وہ کہے گا اے اللہ میں نے تو اس کو گمراہ نہ کیا تھا لیکن وہ خود پر لے درجے کی کھلی گمراہی میں تھا۔ اس لئے میری رہائی ہونی چاہیے۔ اللہ بذریعہ ملائکہ کہے گا میرے سامنے مت جھگڑا کرو میں تم کو پہلے ہی سے برے کاموں پر عذاب کی اطلاع دے چکا ہوں۔ تم لوگون نے اس سے غفلت بلکہ روگردانی کی تو بس اب نتیجہ بھگتو اس میں قصور کس کا؟ میرے ہاں سے جو بات کہی جائے وہ بدلتی نہیں کیونکہ وہ صحیح علم اور انصاف پر مبنی ہوتی ہے اور یہ بھی سب دنیا کو معلوم ہے کہ میں اپنے بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہوں۔ جو کچھ قصور ہے مجرموں کا ہے کیا تم لوگوں نے دنیا میں طبعی صورت میں میرے قوانین معلوم نہ کئے تھے ؟ کہ جو کوئی بدپرہیز ہوتا تھا۔ وہ تکلیف اٹھاتا تھا خواہ بد ہوتا یا نیک۔ اس میں ان کی کوئی رعائت یا لحاظ نہ ہوتا۔ اسی طرح مذہبی اور اخری قانون ہے جو رونے اور چیخنے سے مبدل نہیں ہوتا۔ پس میں بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہوں کہ ناکردہ گناہ ان کے سر تھوپ دوں۔ یا ان کی نیکیاں برباد کر دوں یہ سب کچھ اس روز پورا ظہور پذیر ہوگا۔ جس روز قیامت قائم ہوگی اور سب لوگ بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوں گے ایک طرف بہشت ہوگی دوسری جانب جہنم ایسی بھڑکتی ہوگی گویا ساری دنیا کو کھا جائے ایسے لوگ جن کا ذکر پہلے ہوا یعنی کفار‘ عنید‘ مناع‘ معتد‘ مریب جب اس میں داخل ہوجائیں گے تو ہم اس جہنم سے پوچھیں گے کیا تو ابھی بھری نہیں؟ ہمیں معلوم تو سب کچھ ہوگا لیکن اظہار نتیجہ کے لئے دریافت کیا جائے گا۔ وہ کہے گی میرے حصے میں سے ابھی کچھ اور بھی ہیں ؟ ہے تو ڈال دیجئے۔ اس وقت میری بھوک جوع البقر کی طرح ترقی پر ہے۔ آخر جتنے لوگ اس کے لائق ہوں گے سب اس میں ڈالے جائیں گے پھر تو وہ کہہ اٹھے گی بس اب بس۔ کیونکہ جن لوگوں کا اس میں داخلہ مقدر ہے وہ داخل ہوچکے پھر اس کو کس کی خواہش؟ (یہ اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس میں ذکر ہے حتی یضع رب العزۃ فیھا قدمہ۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ اس آیت کے متعلق ایک حدیث آئی ہے جس کے الفاظ ہیں۔ لا تزال جھنم یلقی فیھا وتقول ھل من مزید حتی یضع رب العزۃ فیھا قدمہ فینز وی بعضھا الی بعض فتقول قط قط۔ متفق علیہ (مشکوۃ باب صفۃ النارواھلہا) ” جہنم میں ڈالا جاتا رہے گا۔ اور وہ کہتی رہیگی کچھ اور بھی ہے۔ یہانتک کہ رب العزۃ اس میں اپنا قدم رکھیگا بس وہ سکڑ جائیگی اور کہے گی بس بس “ اس حدیث میں دو لفظ قابل غور ہیں۔ ایک رب العزۃ دوسرا قدمہ۔ رب العزۃ سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور قدم سے مراد وہ لوگ ہیں۔ جن پر بحکم اللہ جہنمی ہونے کا حکم لگایا گیا ہے۔ قاموس جو لغت عرب کی مستند کتاب ہے اس میں لفظ قدم کے معنے لکھے ہیں۔ وفی الحدیث حتے یضع رب العزۃ فیھا قدمہ ای الذین قدمھم من الا شرار فھم قدم اللہ للنا رکما ان الاخیار قدمہ الی الجنۃ (قاموس) یعنی قدم اللہ سے مراد وہ لوگ ہیں جنکو اللہ نے جہنم میں داخل کئے جانے کا حکم لگایا ہوگا۔ جیسے نیک لوگ جنت کی طرف اللہ کے قدم ہیں مجمع البحار ” جو لغت حدیث کی معتبر کتاب ہے اس میں یہی قدم کے معنے یونہی لکھے ہیں۔ حتے یضع قدمہ فیھا ای الذین قدمھم لھا من شرار خلقہ کما ان المسلمین قدمہ الی الجنۃ (مجمع البحار) پس ان دو شہادتوں سے حدیث اور قرآن کے معنے صاف سمجھے گئے کہ اللہ کا قدم رکھنے سے مراد ان لوگوں کا داخلہ ہے جو اس (جہنم) کے لائق ہیں۔ اس توجیہہ پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ دوسری روایت میں رجلہ آیا ہے یعنی اللہ اپنا رجل دوزخ رکہیگا۔ جس کے معنے یقینا پیر کے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یقینا ان دو لفظوں (قدم اور رجل) میں سے ایک روایت باللفظ ہے۔ دوسرا روایت بالمعنے۔ ہمارے سامنے دو لفظ ہیں ان میں سے ہم روایت باللفظ اس کو قرار دیں جو اپنے معنے کے لحاظ سے شان الوہیت کے مخالف نہ ہو۔ تو بہت مناسب اور موزون ہوگا۔ یہی اس کی ترجیح کا قرینہ ہے۔ پس اس اصول سے ہم کہتے ہیں کہ قدم کی روایت تو باللفظ ہے اور رجل کی روایت بالمعنے ہے یعنی راوی نے اپنے فہم سے قدم کے معنے پیر کے سمجھے تو وہی لفظ نقل کردیا۔ اس توجیہ سے دونوں لفظ بحال رہتے ہیں اور شان الوہیت کے بھی خلاف نہیں۔ اللہ اعلم۔ منہ) اور جنت پرہیزگاروں کے قریب لائی جائے گی۔ جو ان کے سامنے بالکل نزدیک ہوگی اس کو دیکھ کر انکا شوق غالب ہوگا۔ تو ان کو کہا جائے گا۔ جلدی نہ کرو یہ وہی جنت ہے جس کا تم کو وعدہ دیا جاتا تھا ابھی تم اس میں داخل ہوجائو گے۔ جنت ہر کہ ومہ کے لئے نہ ہوگی بلکہ ہر ایک اللہ کی طرف جھکنے والے احکام اللہ کی حفاظت کرنے والے کے لئے ہوگی۔ یعنی جو شخص اللہ کی عظمت اور جلالت کا سکہ اپنے دلوں پر اتنا غالب رکھتا تھا کہ اللہ رحمن سے باوجود اس کی رحمانیت کے بن دیکھے ڈرتا تھا۔ اور جھکنے والا دل لے کر یہاں آیا ہے ایسوں کو حکم ہوگا کہ تم صحت سلامتی کے ساتھ اس بہشت میں داخل ہوجائو۔ اندر جا کر تم کو یہ فکر نہ رہے کہ کبھی نہ کبھی ہم کو ان نعمتوں سے نکالا جائے گا ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ ہمیشگی کا دن ہے۔ آج جو کچھ کسی کو انعام واکرام ملے گا وہ ہمیشہ کے لئے ہوگا۔ وہ بہشتی لوگ جو کچھ چاہیں گے ان بہشتوں میں ان کو ملے گا یہ خیال مت کرنا کہ اتنے بے حساب لوگوں کی خواہشات پوری کس طرح کی جائے گی۔ کیونکہ ان کی خواہشات کتنی بھی ہوں تھوڑی ہوں گی۔ اور ہمارے پاس ان کی خواہشات سے بڑھ کر غیر محدود ہے قیامت کا ذکر سنتے ہی یہ لوگ (صنا دید عرب) سر اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہیں ؟َ ہم اتنے شہ زور۔ دولت مند ہو کر بقول ان مسلمانوں کے ایسے بہشت سے محروم اور یہ غریب مفلس اس کے وارث؟ اینچہ بوالعجبی ست۔ پس سنو ! اور غور سے سنو ! ہم نے ان سے پہلے کتنی قومیں تباہ کردیں جو بل بوتے اور قوت میں ان سے زیادہ تھے۔ پھر وہ اپنے اردگرد کے تمام شہروں میں پھر نکلے۔ کبھی بغرض تجارت کبھی بغرض سیاست کبھی بغرض فلاحت اور سیاحت۔ غرض ہر قسم کی ترقی کی راہیں ان پر کھلیں اور وہ ان میں ظفریاب ہوئے کیا پھر جب عذاب ان پر آیا تو ان کو کوئی راہ فرار ملی؟ کیا وہ اس عذاب سے بچے ؟ ہرگز نہیں۔ تمہارے مخالفوں کا بھی یہی حشر ہونے والا ہے۔ ظلم اور اعتدا کا نتیجہ ہمیشہ برا ہے۔ سنو ! نہ سہی آج کبھی قہر اللہ آئے گا ٹھاٹھہ ان ظالموں کا خاک میں مل جائے گا بے شک اس واقعہ میں (جو گزشتہ لوگوں کا بیان ہوا ہے جس میں مذکور ہے کہ بدکار لوگ باوجود ترقی کے تباہ ہوئے) بڑی نصیحت ہے ان لوگوں کے لئے جو دل سمجھدار رکھتے ہیں یا کسی بات اور نصیحت کو حضور قلب سے سنتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے لئے ہم اپنی قدرت کا ایک واقعہ سناتے ہیں جس سے ان لوگوں کو ہماری طرف جھکنے کے لئے مزید تحریک ہوگی۔ پس سنو ! ہم (اللہ) نے سات آسمان زمین مع مختلف طبقات کے اور اس کے علاوہ جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کچھ چھ دنوں کی مدت میں پیدا کئے۔ تمام حجر‘ شجر‘ کون ومکان زمین و آسمان حیوان وانسان سب کچھ چھ دنوں کے عرصہ میں بنائے اور ہم کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچی کیونکہ ہمارے کام کوئی دست بازو سے نہیں ہوتے۔ بلکہ حکم سے ہوتے ہیں ہم جس کام کو کرنا چاہیں اس کو صرف حکم دینا کافی ہے حکم بھی لفظوں میں ضروری نہیں بلکہ ارادے میں اس کا آنا ہی اس کی پیدائش کے لئے کافی سبب ہے