وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
اور اگر مومنوں کے دو گروہ (٧) آپس میں برسر پیکار ہوجائیں، تو تم لوگ ان کے درمیان صلح کرو، پس اگر ان میں کا ایک گروہ دوسرے پر چڑھ دوڑے، تو تم سب مل کر باغی گروہ سے جنگ کرو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف رجوع کرلے، پس اگر وہ رجوع کرلے، تو تم لوگ دونوں گروہوں کے درمیان عدل و انصاف کے مطابق صلح کرادو، اور انصاف سے کام لو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتاہے
(9۔10) مسلمانو ! اس اخلاقی سبق کے بعد ایک اور سبق سنو جو تم مسلمانوں کے تمدن سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر دو مسلمان شخصوں میں یا دو گروہوں میں لڑائی ہوجائے جو لوازم بشریہ سے ہے تو تم لوگ اس میں تماشہ نہ دیکھا کرو۔ بلکہ ان دونوں میں اصلاح کر کے فساد رفع کردیا کرو۔ خوب دل سے توجہ کر کے مصالحت میں کوشش کیا کرو اور سمجھ رکھو کہ جتنا گناہ فساد کرنے والوں کو ہے اتنا بلکہ اس سے بڑھ کر اس فساد پر خاموش رہنے والوں کو ہے۔ کیونکہ وہ اپنے فرض سے غافل ہیں ان کی خاموشی سے فساد میں ترقی ہوتی ہے ان کو چاہیے تھا کہ فساد دور کرنے میں دلی کوشش کرتے مگر وہ الگ بیٹھ کر تماشہ دیکھتے ہیں۔ اس لئے وہ ذمہ دار ہیں باوجود کوشش کے پھر اگر دیکھو کہ کوئی فریق دوسرے پر ظلم زیادتی کرتا ہے یعنی صلح کی طرف مائل نہیں ہوتا یا بعد مصالحت ہوجانے کے پھر بگاڑ کرتا ہے۔ تو ایسی صورت میں تمہارا فرض بھی منقلب ہوجائے گا۔ یعنی بجائے درمیانی بنکر اصلاح کرنے کے تم پر فرض ہوگا کہ تم لوگ مظلوم اور مائل بصلح فریق سے مل کر اس زیادتی کرنے والے فریق کا مقابلہ کرو جتنی تم میں طاقت ہو اس کو تنگ کرو اس کو بدنام کرو اس کی نسبت لوگوں میں پھیلائو کہ فساد اسی کا ہے۔ جو مصالحت یا شرعی فیصلہ کی طرف نہیں آتا یا آکر پھر جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ حکم الٰہی اور شرعی فیصلہ کی طرف مائل ہو۔ پھر بھی اگر وہ باغی فریق‘ اپنی شرارت اور بے فرمانی سے باز آجائے تو عدل کے ساتھ ان دونوں فریقوں میں اصلاح کردیا کرو اور … اصلاح کرنے میں اس فریق کے …انکار یا بغاوت سابقہ کی وجہ سے طبیعت میں ملال پیدا کر کے کسی طرح کی بے انصافی نہ کیا کرو بلکہ ہر حال میں انصاف ہی کیا کرو جو جس معاملہ میں جتنا قصور وار ہو اس فکو اتنا ہی قصور وار سمجھا کرو۔ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ دیکھو یہ رنجشیں جو مسلمانوں میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ خواہ کسی رنگ میں ہوں دینی صورت میں یا دنیاوی شکل میں ان رنجشوں کو خانگی رنجشیں سمجھ کر زیادہ طول نہ دیا کرو۔ کیونکہ آخر بات تو یہی ہے کہ ایماندار سب آپس میں بھائی بند ہیں پس تم لوگ ان لڑنے والے اپنے بھائیوں میں مصالحت بلکہ اصلاح کردیا کرو۔ دیکھو اصلاح کرنے میں دونوں کو اپنا بھائی جانا کرو اور اس خدمت کے ادا کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ تاکہ تم پر رحم کیا جائے ایسا نہ ہو کہ جانبداری کرنے میں بجائے ثواب کے تم کو عذاب ہو۔