سورة محمد - آیت 31

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

) اور ہم یقینا تمہیں آزمائیں گے (١٥) تاکہ ہم تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو جانیں، اور تاکہ ہم تم سے متعلق خبروں کو آزمائیں

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(31۔38) ہاں تم مسلمان یہ نہ سمجھنا کہ تم امتحان الٰہی سے مستثنیٰ ہو۔ ہرگز نہیں بلکہ ہم (اللہ) تمہاری ضرور جانچ کریں گے۔ یہاں تک کہ ہم تم میں سے مجاہدین اور صابرین کو جو جہاد جیسی سخت تکلیف میں صبر کرتے رہے۔ پبلک میں تمیز کرا دیں گے اور تمہارے حالات پر لوگوں کو اطلاع کرا دیں گے۔ بھلا مخلص مؤمنوں کے ساتھ منافق کب تک ملے جلے رہیں گے ایسا رہنا ٹھیک نہیں۔ اس لئے کہ جو لوگ اللہ کے احکام سے منکر ہیں نہ صرف منکر بلکہ ضد کرتے ہیں اور اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکتے ہیں اور ہدایت کی راہ ان کو معلوم ہوجانے کے بعد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سخت مخالفت کرتے ہیں گو وہ اپنے دل میں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اسلام کو گرا دیں گے لیکن حقیقت میں وہ اللہ کے دین اسلام کو ذرہ جتنا بھی نقصان نہیں پہنچائیں گے نہ پہنچا سکیں گے بلکہ ذلیل وخوار ہوں گے اور ان کے اعمال جتنے انہوں نے کئے ہیں از قسم صالح یا از قسم مخالف اسلام اللہ سب کو ضائع کر دے گا۔ صالح اعمال تو اس طرح کہ انکا بدلہ ان کو نہ ملے گا اور مخالف اس طرح کہ وہ ان کوششوں میں کامیاب نہ ہوں گے۔ یہی ان کا ضائع ہونا ہے۔ پس اے مسلمانو ! تم یقین رکھو کہ ان کفار کے ساتھ اللہ ایسا ہی کرے گا۔ اس لئے تم اللہ کی اور اللہ کے رسول کی تابعداری دل سے کیا کرو۔ اور اپنے اعمال ضائع نہ کیا کرو یعنی نیک اعمال کرتے ہوئے کسی قسم کی ریا نہ کرنا۔ بعد اعمال کرنے کے دل میں غرور نہ لانا۔ کہ ہم نے فلاں نیک کام کیا۔ اسی طرح کسی نیک کام کو شروع کر کے ادھورا نہ چھوڑنا۔ یہ سب صورتیں ضائع ہونے کی ہیں۔ سنو ! اور دل سے سنو ! جو لوگ اللہ کی ذات اور صفات کاملہ سے منکر ہیں نہ صرف خود منکر اور مخالف ہیں بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اللہ کی راہ سے روکتے ہیں پھر وہ کفر ہی کی حالت میں مر جاتے ہیں تو ان لوگوں کو اللہ ہرگز نہ بخشے گا بلکہ ضرور سزا دے گا۔ کیونکہ انہوں نے ڈبل جرم کیا ہے ایک تو خود مجرم بنے دوسرے اور لوگوں کو مجرم بنایا۔ پس تم ان لوگوں کے ظاہری رعب داب سے سست نہ ہو اور ان کو مصالحت کی طرف مت بلائو بلکہ ہمیشہ مقابلہ پر ڈٹے رہو اس میں تمہاری زندگی ہے اور اسی میں تمہاری ترقی ہے۔ اور سن رکھو تم ہی بلند رہو گے بشرطیکہ مضبوط اور ایماندار ہو گے اور اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمال ضائع نہیں کرے گا پس تم ہر طرح اس قومی کام میں لگے رہو۔ دنیا مقابلہ کا میدان ہے جو جتنی کوشش کرے گا اتنا ہی پھل پائے گا۔ دنیا میں باعزت رہنے کی یہی ایک سبیل ہے کہ تم ہر قسم کے قومی مقابلہ میں مضبوط رہو۔ تمہارا کسی قسم کا ضعف دیکھ کر دشمن کو تمہارے گرانے کی طمع نہ ہو۔ ہاں اگر دنیاوی عیش و آرام ہی پر فریفتہ ہو تو سن رکھو کہ سوا اس کے نہیں کہ اس دنیا کی زندگی کھیل تماشہ ہے یعنی چند روزہ تفریح ہے اور بس۔ بہتر ہے کہ اس زندگی میں کوئی اچھا کام کرلو جو دوسری زندگی میں کام آئے۔ پس سنو ! اگر تم ایماندار بن جائو۔ اور برے کاموں سے بچتے رہو۔ یعنی ایمان لا کر اعمال صالحہ کرتے رہو۔ اور بد اعمال سے پرہیز کرتے رہو۔ تو اللہ تمہارے کاموں کا بدلہ تم کو پورا دیگا۔ اور وہ اپنی ضرورت کے لئے تم سے مال نہیں مانگے گا۔ جیسے دنیا کے بادشاہ اپنی حاجت روائی کے لئے رعایا سے ٹیکس یا قرض وغیرہ مانگا کرتے ہیں۔ وہ مانگے تو کیوں ؟ جبکہ دراصل وہی داتا ہے تو اپنے محتاجوں اور سائلوں سے مانگے؟ ہاں اس میں بھی شک نہیں کہ اگر وہ اللہ تم سے اپنی ضرورت کے لئے مال مانگے اور تم کو چمٹ کر بھی مانگے تو بھی تم نہ دو گے بلکہ بخل کرو گے اور اس سے تمہارے چھپے راز اور دلی بغض وعناد وہ ظاہر کرے گا۔ کیونکہ اسلامی ضرورت کے موقع پر جو خرچ نہ کرے اس کے دل میں اسلام کی محبت کہاں بلکہ بغض کا ثبوت ہوگا۔ دنیا میں محبت کا اصول یہ ہے کہ پیارے پر سب کچھ قربان ہوتا ہے۔ اگر اسلام پیارا ہے تو اس پر سب کچھ قربان ہے۔ ورنہ دعویٰ غلط۔ اے مسلمان لوگو ! اسلام کے مدعیو ! تمہاری بہتری اور ترقی مدارج کے لئے تم کو بلایا جاتا ہے۔ کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو پھر بھی بعض تم میں سے بخل کرتے ہیں اور بعض اللہ کے بندے دلیری سے خرچتے بھی ہیں۔ اور اللہ کے ہاں سے اس کی نیک جزا کی امید رکھتے ہیں۔ سنو ! جو اللہ کی راہ میں نیک کاموں پر خرچ کرنے سے بخل کرتا ہے۔ وہ یہ نہ سمجھے کہ میں اللہ کے حق میں یا دین کے حق میں بخل کرتا ہوں جس سے اللہ کا یا دین کا کچھ بگڑے گا۔ بلکہ وہ اپنے نفس سے بخل کرتا ہے اس کا وبال اسی کی گردن پر ہوگا۔ اور اس کا نقصان خود اسی کو پہنچے گا۔ اللہ کو اس کے بخل کا کوئی اثر نہیں پہنچتا۔ کیونکہ بندوں کے خرچ سے اس کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں۔ وہ اللہ برتر دنیا کے سب لوگوں سے غنی بے نیاز اور بے پرواہ ہے اور تم ہر آن اس کے محتاج ہو۔ وجود میں۔ بقا میں حاجات میں غرض ہر بات میں۔ پھر تمہارے خرچ سے اس کا ذاتی فائدہ اور کام چلے تو کیونکر؟ اور بخل سے نقصان ہو تو کیوں۔ سنو ! اگر تم مسلمان اس کے دین کی خدمت سے روگردانی کرو گے یعنی اس کے راستے میں خرچ نہ کرو گے تو وہ تم کو اس خدمت کا نااہل جان کر تمہارے بجائے اور کوئی قوم لے آئے گا۔ جو دین کی خدمت کریں گے پھر وہ تمہارے جیسے نالائق نہ ہوں گے۔ تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایسا ہی ہوگا اسلام کی خدمت کا احسان اللہ پر مت رکھو بلکہ اللہ کا احسان سمجھو کہ اس نے تمہیں اس خدمت کے لائق بنایا۔ منت منہ کہ خدمت سلطاں ہمی کنی منت ازد بداں کہ بخدمت گذاشتت